Pages

Monday, 25 March 2013

شوخی نے تیری کام کیا اک نگاہ میں



شوخی نے تیری کام کیا اک نگاہ میں
صوفی ہے بتکدے میں صنم خانقاہ میں

آنکھیں بچھائیں ہم تو عدو کی بھی راہ میں
پر کیا کریں کہ تو ہے ہماری نگاہ میں

بڑھتا ہوں آگے پوچھ کر اُس سے مقام عشق
جو فتنہ مجھ غریب کو ملتا ہے راہ میں

دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہاتھا کسی کی نگاہ میں

راتیں مصیبتوں کی جو گذریں تھیں آج تک
ماتم میں آئے ہیں مرے روز سیاہ میں

اُس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر
جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں

آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

تاثیربچ کے سنگ حوادث سے آئے کیا
میری دعا بھی ٹھوکریں کھاتی ہے راہ میں

کیسا نظارہ کس کا اشارہ کہاں کی بات
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں نیچی نگاہ میں

جو کینہ آج ہے ترے دل میں ستم شعار
جائے گا کل یہی تو دل داد خواہ میں

مشتاق اس صدا کے بہت درد مند تھے
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں

No comments:

Post a Comment