Pages

Friday, 15 March 2013

وہ جو اک خواہشِ خوش بستہ تھی اپنے جی میں


خامشی رنگ ہوئی جاتی ہے دھیرے دھیرے
ایک تصویر بنی جاتی ہے دھیرے دھیرے


وقت کے سیل میں یہ خواب سی بہتی ساعت
خود ہی تعبیر ہوئی جاتی ہے دھیرے دھیرے


زندگی تجھ کو کوئی کیسے کرے تیز قدم
باد تلخ تو پی جاتی ہے دھیرے دھیرے


پوچھ مت، کیسے سنبھالی ہے بدن کی دیوار 
ریت گرتی ہی چلی جاتی ہے دھیرے دھیرے


زندگی کی جو بنائی تھی خیالی تصویر
اس پہ اب گرد جمی جاتی ہے دھیرے دھیرے


وہ جو اک خواہشِ خوش بستہ تھی اپنے جی میں 
برف کی طرح گھلی جاتی ہے دھیرے دھیرے


تم نے اقرارِ محبت کو زباں کھولی ہے 
اور یہاں سانس رکی جاتی ہے دھیرے دھیرے


No comments:

Post a Comment