Pages

Sunday, 31 March 2013

شبِ وصل کے وہ لمحے


مجھے یاد ہے اب تک
شبِ وصل کے وہ لمحے
کہ جب تم اور ہم ملے تھے
تیری چہرے پہ نظر جمائے
ساری دنیا کو بھلائے
میں نے یوں لب ہلائے
یہ تارے کیسے ہیں
دو پانیوں میں دمکتے ہیں
جھیل کہ لہروں کے سنگ
لیے اپنی ہی ترنگ
جھومتے اور چمکتے ہیں
تیرے حسن پہ خود بھی مرتے ہیں
وہ دو تارے تم دیکھ نہ پاؤ
ان کا احساس تم کر نہ پاؤ
آج برسوں بعد
ہاں کئی برسوں بعد
جب کہ میں تنہا ہوں
برسوں گذرے نہ دیکھے تارے
وہ دو تارے دمکتے دمکتے
نہ وہ دو پانیوں کی جھیلیں
پھر سے سوچ کے من مندر میں
یاد کے گہرے عمیق سمندر میں
جھانکنے پر میں جان پایا
وہ دو تارے 
تیری آنکھ کے جھلمل پانی میں
لرزتے ہوئے دو آنسو تھے
جو تیرے دل سے ابلتے تھے
تیری جھیل سی گہری آنکھوں سے
تیرے گالوں پہ ٹپکتے تھے


No comments:

Post a Comment