Pages

Friday, 22 March 2013

چھوڑ آئے ہم، وہ گلیاں


چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں

جہاں ترے پیروں کے


کنول کھلا کرتے تھے


ہنسے تو دو گالوں میں


بھنور پڑا کر تے تھے


تری کمر کے بل پر


ندی مڑا کرتی تھی


ہنسی تری سُن سُن کر


فصل پکا کرتی تھی


جہاں تری ایڑی سے


دھُوپ اُڑا کرتی تھی


سنا ہے اس چوکھٹ پر


اب شام رہا کرتی ہے


دل درد کا ٹکڑا ہے
پتھر کی ڈَلی سی ہے
اِک اَندھا کنواں ہے یا 
اِک بند گلی سی ہے
اِک چھوٹا سا لمحہ ہے
جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں 
یہ بھسم نہیں ہوتا


No comments:

Post a Comment