Pages

Tuesday, 26 March 2013

یونہی چلتے ہوئے


یونہی چلتے ہوئے راستوں میں کئی ہمسفر جو ملے
اور بچھڑتے گئے
آتے جاتے ہوئے موسموں کی طرح
آپ ہی اپنی گردِ سفر ہوگئے
نہ کبھی میں نے پھر مُڑ کے دیکھا
اور نہ سوچا کبھی
وہ کہاں کھو گئے
جو گئے، سو گئے
پھر یہ کیسے ہوا !۔
یونہی اک اجنبی، دیکھتے دیکھتے
دل میں اُترا، تو دل میں سما سا گیا
اور دھنک رنگ سپنے جگا سا گیا
جیسے بادل کوئی، بےارادہ یونہی، میری چھت پہ رُکا
اور برسے بنا اس پہ ٹھہرا رہا
کیا تماشا ہوا، سامنے تھی ندی اور کوئی تشنہِ لب
اس کو تکتا گیا اور پیاسا رہا
ایک لمحے میں سمٹے گی یہ داستاں
کس کو معلوم تھا !۔
تم ملو گے مجھے اس طرح بےگماں
کس کو معلوم تھا


No comments:

Post a Comment