Pages

Thursday, 28 March 2013

تمہاری خواہش پہ عمر بھر کی جُدائیاں بھی قبول کر لوں



یہ مُسکراتے تمام سائے، ہوئے پرائے تو کیا کرو گے

ہوا نے جب بھی مرے بدن کے دِیے بُجھائے تو کیا کرو گے


تمہاری خواہش پہ عمر بھر کی جُدائیاں بھی قبول کر لوں

مگر بتاؤ ! بغیر میرے جو رہ نہ پائے تو کیا کرو گے


وہ جن میں میرے عذاب تیرے، سراب اُبھرے یا خواب ڈُوبے

وہ سارے لمحے تمہاری جانب پلٹ کے آئے تو کیا کرو گے


بغیر در کے کسی بھی گھر میں گِھرے ہوئے ہو یہ فرض کر لو

اور ایسے عالم میں مِل سکے نہ جو میری رائے تو کیا کرو گے


ابھی تو میرے غلاف ہاتھوں میں مطمئن ہیں پہ بعد میرے

جو آندھیوں میں چراغ اپنے یہ تھرتھرائے تو کیا کرو گے


تمہاری آنکھوں میں عکس میرا اگر نہ ہو گا تو کیسا ہو گا

سماعتوں کے شجر پہ پنچھی نہ چہچہائے تو کیا کرو گے


کرو گے کیا جو مرے بدن سے دُھویں کی اِک دِن لکیر اُٹھی

لکیر سے پھر ہزار چہرے نکل کے آئے تو کیا کرو گے


وہ جن خیالوں میں رہ کے تم سے مری بھی پہچان کھو گئی ہے

انہی خیالوں کے سب مسافر ہوئے پرائے تو کیا کرو گے


یہ سوچتے ہو چلا گیا وہ تو، چھت پہ جاؤ گے کس لیے تم

کہ اب کے ساون کی بارشوں میں جو سب نہائے تو کیا کرو گے


ہے دسترس میں ابھی بھی طاہر اُٹھا کے اب اس کو پی بھی ڈالو

مشاہدوں میں ہی ہو گئی گر یہ ٹھنڈی چائے تو کیا کرو گے

No comments:

Post a Comment