Pages

Wednesday, 3 April 2013

اداس لمحوں میں آخر وہ مل گیا تھا مجھے


اداس لمحوں میں آخر وہ مل گیا تھا مجھے
مری ہی آنکھوں کی چلمن سے جھانکا تھا مجھے

وہ قُربتوں کی تمازت سے جل رہا تھا کچھ اور
وہ آنسوؤں کی جھڑی سے بُجھا رہا تھا مجھے

لپٹ کے مجھ سے بڑی سادگی کے لہجے میں
نہ جانے کس کے فسانے سنا رہا تھا مجھے

اُسے یہ غم کہ تھا یادوں کے کرب میں‌تنہا
مجھے یہ شکوہ کہ اُس نے بھلا دیا تھا مجھے

میں خود ہی خواب جزیروں میں‌گم رہا شاید
وہ لہر لہر میں ورنہ پکارتا تھا مجھے

عجیب عالمِ وارفتگی میں ڈوبا ہوا
بڑے قرینے سے پھر آزما رہا تھا مجھے

مگر یہ کیسا تحّیر تھا اس کی آنکھوں میں
کہ دیکھتا تھا مجھے جیسے سوچتا تھا مجھے

نہ جانے کتنے نئے وسوسوں کا ناگ کرم
اتر کے میری رگ و پَے میں ڈس رہا تھا مجھے


No comments:

Post a Comment