Pages

Monday, 8 April 2013

اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے


ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے

آج کے دن کریں‌ تجدید وفا دھرتی سے
پھر وہی صبح وہی شام سہانی دےدے

تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے
میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے

وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے
اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے

تپتے صحراؤں پہ ہو لطف و کرم کی بارش
خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دے دے

دیدء دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں
وہ چہرہ وہی آنکھیں وہ جوانی دے دے

جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیں
میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دے دے

No comments:

Post a Comment