Pages

Sunday, 28 April 2013

فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے



فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے

دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں

کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے

کار ہائے دنیا سے جو ملے ہم کو

وہ چاک تمھاری رفاقتوں سے نہ سلے ہوتے

!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے

تو آج اس حسیں موڑ پر اجنبی جیسے

مل بیٹھتے اور اک نیا آغاز کرتے

تم اپنی مسکراہٹ سے چھیڑتی راگنی

ہم دل کو مدعا، دھڑکنوں کو آواز کرتے

فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے

تم اپنی دنیا میں گم سم 

الگ سے خواب بنا کرتی

ہم اپنے خیالوں میں گنگناتے

کوئی دور ہمیں سنا کرتی

!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے

دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں

کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے

تو اب جو ملال گزرے دنوں کا ہے

وہ کسی اور شخص سے منسوب ہوتا

ہم تم اجنبی ہی رہتے جو عمر بھر

تو سوچو کتنا خوب ہوتا

نہ چاہتیں ہوتیں، نہ رنجشیں بنتیں

آرذویں جو دل میں دبی رہتیں

ایسے نہ آنکھوں کی بارشیں بنتیں

نہ تمھیں کچھ ہماری خبرہوتی

نہ ہمیں کوئی تمھاری فکر ہوتی

نہ جھگڑے وفا جفا کے ہوتے

نہ ہی کوئی ہجر و وصال کے سلسلے ہوتے

!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے

No comments:

Post a Comment