Pages

Thursday, 11 April 2013

نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت


مثال برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں 
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں

وہ جن کی آنکھوں میں ہوتا ہے زندگی میں ملال 
اسی قبیلے سے خود کو ملانا چاہتی ہوں

جہاں کےبند ہیں صدیوں سےمجھ پہ دروازے 
میں ایک بار اسی گھر میں جانا چاہتی ہوں

ستم شعار کی چوکھٹ پہ عدل کی زنجیر 
برائے داد رسی اب ہلانا چاہتی ہوں

نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت 
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں

مسافتوں کو ملی منزلِ طلب نیناں 
وفا کی راہ میں اپنا ٹھکانہ چاہتی ہوں


No comments:

Post a Comment