Pages

Sunday, 7 April 2013

!او دیس سے آنے والے بتا


او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟
آوارۂ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن، وہ سرو ِوطن، ریحانِ وطن
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا ہم کو وہاں کے باغوں کی مستاتہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں، ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے، جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی، مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کمسن ماہ وشیں، تالاب کی جانب جاتیں ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگیں ترانے گاتی ہیں
!او دیس سے آنے والے بتا


شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزرا اب، کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے، پھولوں کے گندھے ہار اب، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں، نوعمر خریدار، اب، کہ نہیں؟
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں، وہ خواب گہِ مَہتاب فضا؟
!او دیس سے آنے والے بتا


کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی، آہ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا، للّہ بتا للّہ بتا
!او دیس سے آنے والے بتا


No comments:

Post a Comment