Pages

Monday, 15 April 2013

اشکوں کے پانیوں میں اترا کسی کا چہرہ


ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹھہر گیا ہے 
میری نظر میں کوئی جلوہ ٹھہر گیا ہے

اشکوں کے پانیوں میں اترا کسی کا چہرہ 
بہتا ہوا اچانک دریا ٹھہر گیا ہے

آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں 
پلکوں پہ میری کیسے قطرہ ٹھہر گیا ہے

جس نےمجھے چھوا تھا نشتر تھا وہ ہوا کا 
زخم ایک میرے دل میں گہرا ٹھہر گیا ہے

نیلی رتوں میں کوئی آ کر ملا تھا شاید 
اک زہر سا رگوں میں جس کا ٹھہر گیا ہے

کیسا عجب سفر ہے دل کی مسافتوں کا 
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹھہر گیا ہے

گردش رکی ہوئی ہےمیرے لہو کی نیناں 
یا وقت کا کہیں پر پہیہ ٹھہر گیا ہے 


No comments:

Post a Comment