Pages

Tuesday, 16 April 2013

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے


رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں

اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحاؤں میں

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

جس براہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ میرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

وہ خدا ہے تو کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہوگا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈؤ نہ کلیساؤں میں

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

مجھ سے کرتے ہیں قتیل اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں میرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں


No comments:

Post a Comment