Pages

Thursday, 16 May 2013

وقت پھر وار کر نہ جائے کہیں


نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

*********************

وقت پھر وار کر نہ جائے کہیں
خواب آنکھوں میں مر نہ جائے کہیں

میری آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا لمس
یہ بھی سپنا بکھر نہ جائے کہیں


تجھ کو یہ خوف کیوں ہے اے جاناں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں


تیرے جانے سے میرے دل کا نگر
خشک پتوں سے بھر نہ جائے کہیں


ضبط کرنا مجھے بھی مشکل ہے
آنکھ تیری بھی بھر نہ جائے کہیں

شبنم رحمٰن

No comments:

Post a Comment