Pages

Wednesday, 22 May 2013

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے



کچھ تو اے یار علاج غم تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کے رسوائی ہو

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں
ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو

جس نے بھی مجھ کو تماشہ سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تیری پسپائی ہو

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستان میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہر محبت کا مکین
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

یوں گزر جاتا ہے عمران تیرے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

No comments:

Post a Comment