Pages

Monday, 27 May 2013

صبح صبح اِک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا


صبح صبح اِک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
دیکھا سرحد کے اُس پار کے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سُنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دُھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان مِیرے
پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بُجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ اب تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید
خواب ہی ہو گا
سرحد پر کل رات، سُنا ہے،
چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات، سُنا ہے
کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا

No comments:

Post a Comment