Pages

Monday, 13 May 2013

وہ اشک تھا اُسے آنکھوں میں دفن ہونا تھا



ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اُس کو
تمام عُمر لگی جُھوٹ بولتے اُس کو

جِسے کَشِید کیا تھا، خُمارِ خُوشبو سے
مثالِ رنگ ہواؤں میں گھولتے اُس کو

وہ خواب میں ہی اُترتا شُعاعِ صبح کے ساتھ
ہم اپنے آپ ہی پلکوں پہ تولتے اُس کو

وہ اشک تھا اُسے آنکھوں میں دفن ہونا تھا
گُہر نہ تھا کہ سِتاروں میں رولتے اُس کو

وہ بے وفا تھا، تو اِقرار لازمی کرتا
کچھ اور دیر میری جاں! ٹٹولتے اُس کو

کِسی کی آنکھ سے محسن ضرور پِیتا ہے
تمام شہر نے دیکھا ہے ڈولتے اُس کو


No comments:

Post a Comment