Pages

Wednesday, 8 May 2013

پھر پلٹ آئے ہو کیا سوچ کے جانِ جاناں



زندگی کیا تری آہٹ کی صدا ہو جیسے
بندگی کیا، ترے ملنے کی دعا ہو جیسے

کسی خوشبو سے، کسی لمس کی سرگوشی سے
دلِ وارفتہ کا دروازہ کھلا ہو جیسے 

سرخ چوڑی کی کھنک چھیڑ گئی پھر ہم کو
پھر تری یاد کا کنگن سا بجا ہو جیسے

تیری آواز کی رِم جھم سے شرابور ہے دل
میں تمھارا ہوں، یہ دھیرے سے کہا ہو جیسے

اس تصور سے ہی سرشار رہا کرتی ہوں
میرا آنچل ترے دامن سے بندھا ہو جیسے

کس سے مرمٹنے کی سیکھی ہے ادا کیا کہیے
شمع پر پھر کوئی پروانہ جلا ہو جیسے

بن تیرے زیست تھی اِک درد سمندر کی طرح
یا کڑی دھوپ میں اک آبلہ پا ہو جیسے

پھر پلٹ آئے ہو کیا سوچ کے جانِ جاناں
پا بہ زنجیر ابھی میری وفا ہو جیسے

No comments:

Post a Comment