Pages

Wednesday, 8 May 2013

یہ اداس آنکھیں میری



کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا
ایسا بادل
جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کردے
ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے
روح کو جل تھل کردے
اداس آنکھیں میری
ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اس رات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا
ایسا سورج
جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کردے
خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے
بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں
وہ جو اک لمحہ امر ہے
وہ ٹھہرتا ہی نہیں
بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں
میرا سورج

میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں

No comments:

Post a Comment