Pages

Thursday, 9 May 2013

اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے



اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے
وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے

میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا
میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے

خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے
بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے

دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں
دل تو پانی سے بھی عکس ماہ کامل مانگے

سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی "محسن"
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے

No comments:

Post a Comment