Pages

Tuesday, 30 July 2013

پرسہ دیتی ہے مجھے سرمئی شام بھی گاہے گاہے


پرسہ دیتی ہے مجھے سرمئی شام بھی گاہے گاہے
ہوا لکھتی ہے پیڑوں پہ تیرا نام بھی گاہے گاہے

رقص کرتی ھوئی خوشیوں کا تناسب کم ہے
ساتھ چلتے ہیں گردش ایام بھی گاہے گاہے

کچھ تو بادل بھی میرے شہر کا نصیبہ ٹھہرے
اور وہ چاند آتا ہے لب بام بھی گاہے گاہے

اس کے مسلک میں جفا ہے نہ شفا ہے یارو
اسی طبیب سے رہتا ہے مگر کام بھی گاہے گاہے

اتنی نازاں نہ ہو قسمت پہ ائے میری دشمن جان
خاک میں مل جاتے ہیں لالہ وگلفام بھی گاہے گاہے

اس کڑی دھوپ میں یاد آئی ہے صبح چمن
اور بدلیوں سے جھانکتی وہ شام بھی گاہے گاہے

شہر آشوب میں نقد و نظر کیا معنی انور جمال
شاعر بک جاتے یہاں بے دام بھی گاہے گاہے

No comments:

Post a Comment