Pages

Wednesday, 7 August 2013

کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر


آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے دیکھا جو انھیں تو ہاتھ گیلے ہو گئے

جانے کیا احساس سازِ حسن کی تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی مرے نغمے رسیلے ہو گئے

اب کوئی امید ہے شاہد نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے

No comments:

Post a Comment