Pages

Sunday, 4 August 2013

سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے


سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے

دل کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے

شاید اب کے بھی مری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد کوئی حرف گماں کھینچتا ہے

ایک بے نام سی آہٹ پہ دھڑکتا ہوا دل
عکس تیرا ہی سر شیشۂ جاں کھینچتا ہے

جا چکا ہے وہ مرے حال سے باہر پھر بھی
اپنی جانب مرے ماضی کے نشاں کھینچتا ہے

تیر نکلے گا تو سوچیں گے، ابھی تو خالد
وہ فقط میری طرف اپنی کماں کھینچتا ہے 

No comments:

Post a Comment