Pages

Monday, 5 August 2013

تہمتیں تو لگتی ہیں


تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
گھر سے باہر آنے کی کُچھ سزا تو ملتی ہے
لوگ لوگ ہوتے
ان کو کیا خبر جاناں !
آپ کے اِرادوں کی خوبصورت آنکھوں میں
بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتوں کے
زخم کیسے ہوتے ہیں
کتنے گہرے ہوتے ہیں
کب یہ سوچ سکتے ہیں
ایسی بے گناہ آنکھیں
گھر کے کونے کھدروں میں چھُپ کے کتنا روتی ہیں
پھر بھی یہ کہانی سے
اپنی کج بیانی سے
اس قدر روانی سے داستان سنانے
اور یقین کی آنکھیں
سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے رونے لگتی ہیں
تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
تہمتوں کے لگنے سے
دل سے دوست کو جاناں
اب نڈھال کیا کرنا
تہمتوں سے کیا ڈرنا

No comments:

Post a Comment