Pages

Tuesday, 10 September 2013

اگرچہ مرگ وفا ایک سانحہ تھا مگر


اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا
لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا

یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح
کہ ایک لہر اٹھی نقش آب ختم ہوا

کسی کو پڑھ لیا ایک ہی نشست میں ہم نے
کوئی ضخیم تھا اور باب باب ختم ہوا

اگرچہ مرگ وفا ایک سانحہ تھا مگر
میں خوش ھوا کہ چلو یہ سراب ختم ہوا

مہک کے ساتھ ہی رنگت بھی اڑ گئی"خالد"
بچھڑ کے شاخ سے خود بھی گلاب ختم ہوا

No comments:

Post a Comment