Pages

Thursday, 26 September 2013

شکستِ خواب کی ساعت


عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کرلوں
میں ان سے خود کو ضرب دُوں کہ منقسم کرلوں

میں آندھیوں کی مزاج آشنا رہی ہوں مگر
خُود اپنے ہاتھ سے کیوں گھر کو منہدم کرلوں

بچھڑنے والوں کے حق میں کوئی دُعا کرکے
شکستِ خواب کی ساعت محتشم کرلوں

بچاؤ شیشوں کے گھر کا تلاش کرہی لیا
یہی کہ سنگ بدستوں کا مُنصرِم کرلوں

میں تھک گئی ہوں اِس اندر کی خانہ جنگی سے
بدن کو’’سامرا‘‘ آنکھوں کو ’’معتصمِ‘‘کرلوں

مری گلی میں کوئی شہر یار آتا ہے
ملا ہے حکم کہ لہجے کو محترِم کرلوں

No comments:

Post a Comment