Pages

Thursday, 19 September 2013

جب تو قبول ہے،تیرا سب کچھ قبول ہے


پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
جب تو قبول ہے،تیرا سب کچھ قبول ہے

پھر تونے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے

تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے

تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے

لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیم
جو مانتا نہیں ،اسے کہنا فضول ہے

آکے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیم
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے

No comments:

Post a Comment