Pages

Wednesday, 4 September 2013

سُنو، اک بات مانو گے؟


کئی برسوں سے جس پل کو
میں دل کی جھیل کی تہہ میں
سُلا کے بُھول بیٹھا تھا
وہی پل جاگ اُٹھا تو، کنول بن کر چمک اُٹھا
میں چونک اُٹھا کہ یہ سب کس طرح سے ہو گیا یکدم
وہ پل جاگا تو جیسے خون کی ساری ہی شریانیں
کسی نے کھینچ کر رکھ دیں
لگا پانی کا رستہ بُھول کر مچھلی نے گویا چُن لیا صحرا
بغاوت کا ارادہ کر لیا سانسوں کے طوفاں نے
یہ دھڑکن گُنگُنا اُٹھی
لگا پیروں سے لے کے سر تلک شعلے بھڑک اُٹھے
لہو کی ساری بوندوں نے سُلگنے کی قسم کھا لی
پِگھلتا ہی گیا جذبوں کا سونا موم کی صورت
ان آنکھوں میں محبت کے ہزاروں دِیپ جل اُٹھے
میری چُندھیا گئی پلکیں
تھکا ماندہ نظر آیا فلک کا چاند آخرکار
ستارے پڑ گئے مدھم
سُنو، اک بات مانو گے؟
تم اپنی ساری چاہت کو میری جاگیر کر ڈالو
وفا ہوں میں، مجھے پیروں کی تم زنجیر کر ڈالو
مجھے اب خواب سے تعبیر کر ڈالو 

No comments:

Post a Comment