Pages

Wednesday, 25 September 2013

وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی، جو یقین تھے وہ گماں ہوئے


یہ جو وقت ہے مرے شہر پر کئی موسموں سے رُکا ہوا
اِسے اِذن دے کہ سفر کرے
اِسے حکم دے کہ یہ چل پڑے ۔۔ مرے آسمان سے دُ ور ہو
کوئی چاند چہرہ کُشا کرے ؛ کوئی آفتاب ظہور ہو
کہ نواحِ چشمِ خیال میں وہ جو خواب تھے ۔۔ وہ دھواں ہوئے
وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی، جو یقین تھے وہ گماں ہوئے
کوئی دُھند ہے جسے دیکھتے مری آنکھ برف سی ہو گئی
وہ عبارتِ سرِ لوحِ دل، کسی ربط سے نہیں آشنا
کہ جو روشنی تھی کتاب میں وہی حرف حرف سی ہو گئی
کوئی گرد باد اُٹھے کہیں کسی زلزلے کی نمود ہو
یہ جو ہست ہے مرے چار سو، کوئی معجزہ کہ یہ “بود” ہو

مری آنکھ میں یہ جو رات ہے مری عمر سی اسے ٹال دے
مرے دشتِ ریگِ ملال کو کسی خوش خبر کا غزال دے
یہ فلک پہ جتنے نجوم ہیں ترے حکم کے ہیں یہ منتظر
وہ جو صبحِ نو کا نقیب ہو مری سمت اُس کو اُچھال دے

No comments:

Post a Comment