Pages

Monday, 23 September 2013

تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے


حیران ہوں کے یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے

تو اہل نظر تو نہیں تجھ کو خبر کیا 
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے

لکھا ہے میرا نام سمندر پہ ہوا نے ،
اور دونوں کی فطرت میں سکون ہے نا وفا ہے

اٹھتی ہیں جو پہلو سے میرے درد کی لہریں
بیتاب سمندر کوئی سینے میں دبا ہے

اے ذیست کے دوزخ سے گزرتے ہوئے لمحوں
سوچا ہے کبھی تم نے کہہ جینا بھی سزا ہے 

No comments:

Post a Comment