Pages

Thursday, 19 September 2013

چشمِ تر ، قلبِ حزیں ، آبلے پاؤں میں لئے


اس نے مکتوب میں لکھا ہے کہ مجبور ہیں ہم
اور بانہوں میں کسی اور کی محصور ہیں ہم

اُس نے لکھا ہے کہ ملنے کی کوئی آس نہ رکھ
تیرے خوابوں سے خیالوں سے بہت دور ہیں ہم

ایک ساعت بھی شبِ وصل کی بھولی نہ ہمیں
آج بھی تیری ملن رات پہ مغرور ہیں ہم

چشمِ تر ، قلبِ حزیں ، آبلے پاؤں میں لئے
تیری اُلفت سے ، ترے پیار سے معمور ہیں ہم

اُن کی محفل میں ہمیں اذنِ تکلم نہ ملا
اُن کو اندیشہ رہا سرمد و منصور ہیں ہم

یوں ستاروں نے سنائی ہے کہانی اپنی
گویا افکار سے جذبات سے معذور ہیں ہم

اس نے لکھا ہے جہاں میں کریں شکوہ کس سے
دِل گرفتہ ہیں غم و درد سے بھی چُور ہیں ہم

تیرا بیگانوں سا ہم سے ہے رویہ شہزاد
باوجود اِس کے ترے عشق میں مسحور ہیں ہم

No comments:

Post a Comment