Pages

Monday, 20 January 2014

دل ٹوٹے تو پھر کب جسم سنبھلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

 

جیسے پہاڑ پھسلتا ہے 
دھیرے دھیرے اور پھر یکدم جیسے پہاڑ پھسلتا ہے 
اِک مدَّت تک دُکھ کا شعلہ اندر اندر جلتا ہے
کوئی شے آسائش کو آزار بناتی رہتی ہے 
کھوکھلی خواہش جینے کو دشوار بناتی رہتی ہے
تنھائی چھپ چھپ کر دل میں خار بناتی رہتی ہے
مٹی مٹتے مٹتے بھی آثار بناتی رہتی ہے
گدلا چشمہ قطرہ قطرہ آنسو آنسو ڈھلتا ہے 
سارے کاہی خاکی بندھن اک اک کرکے ٹوٹتے ہیں
گیلی مٹی رفتہ رفتہ حوصلہ چھوڑتی جاتی ہے
اور پھر ایک دن 
خاک کا تودہ چلتا ہے
منظر رنگ بدلتا ہے 
دل ٹوٹے تو پھر کب جسم سنبھلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

No comments:

Post a Comment