Pages

Monday, 12 May 2014

اداسیوں کے عذابوں سے پیار رکھتی ہوں

Image

اداسیوں کے عذابوں سے پیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں 

یہ دیکھ کتنی منور ہے میری تنہائی
چراغ، بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں 

نہ چاند ہے نہ ستارہ نہ کوئی جگنو ہے
نصیب میں کئی شب ہائے تار رکھتی ہوں 

کہاں سے آئے گا نیلے سمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں 

مثالِ برق چمکتی ہوں بے قراری میں
میں روشنی کی لپک بر قرار رکھتی ہوں 

جلی ہوئی سہی دشتِ فراق میں لیکن
کسی کی یاد سے دل پُر بہار رکھتی ہوں

No comments:

Post a Comment