Pages

Friday, 12 September 2014

درد کے مرحلے تمام ہوئے



دوست بن کر جو کل ملا تھا مجھے

کتنا بے چین کر گیا ہے مجھے

وہ تھا خوشیوں کا ایک سوداگر

جو مجھے کل ملا تھا رستے میں

میری آنکھوں میں آنسوؤں کے نشاں

صاف کر کے بڑی محبّت سے

میرے ہاتوں میں پھول پکڑآ کے

جھک کے اُس نے کہا تھا ہولے سے

اب سُنو، میری پوری بات سُنو

صبح ہوتی ہے اُس طرف دیکھو

درد کا سب سفر تمام ہوا

دوست! آج کے بعد تم نہ روؤ گی

میں نے سچ مان لی تھی بات اُس کی

آنسوؤں کی جھڑی میں ہنس دی تھی

آج پھر دُکھ بھرا اکیلا دن

کرب کی رات درد کے سپنے

زینہ زینہ اُترتے آتے ہیں

شام ڈھلتی ہے پھر اُفق کے پار

آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں

کون جانے وہ منچلا ہنس مُکھ

کون سے شہر کس گلی میں ہو

پھر کوئی میرے جیسی لڑکی ہو

جو اُسے دوست ہی سمجھتی ہو

جس کو وہ پھر نوید دیتا ہو

لو سُنو، میری پوری بات سُنو

دوست درد کے مرحلے تمام ہوئے

آج کے بعد تم نہ روؤگی

اُس کو عادت ہے دُکھ بٹانے کی

پھول دینے کی، دوست کہنے کی

اور پھر قول بھول جانے کی

No comments:

Post a Comment