Pages

Friday, 17 April 2015

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا


کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے

صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا

اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح

سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا

تیرا پیماں وفا راہ کی دیوار بنا

ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا، مرجاؤں گا

چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں

زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا

اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں

اب اسے ڈھونڈنے میں تابہ سحر جاؤں گا

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کرجاؤں گا

No comments:

Post a Comment