Thursday, 28 May 2015

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں




کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں

سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی

اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں

ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ

ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں

نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر

بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں

شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے

کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں

ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر

ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں

دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے

عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں

Thursday, 21 May 2015

عیادت


وہی ایک پل تیری دید کا

بےبسی


تہمتیں تو لگتی ہیں


وہ تو خوشبو ہے


بجھ کے رہے گا ہجر کا شعلہ


تمنا پھر مچل جائے اگر تم ملنے آ جاؤ


حقیقت اور فسانہ


چلے بھی آؤ


مجھے سلجھا'واب جاناں


ہوائے ہجر نے بجھا دیے تیرے چراغ


تم ایسا کیوں نہیں کرتے


جس روز ہمارا کوچ ہو گا


Thursday, 14 May 2015

شگوفہ


ہمیں کیا برا تھا مرنا


کٹ ہی گئی جدائی بھی



ہجر والوں سے آئینہ گفتگو نہیں کرتا


جب آنکھ میں نمی آ جائے


تم بن بہت اداس ہوں


ان جھیل سی گہری آنکھوں میں


بیتی ہے اک عمر تمہیں ڈھونڈتے ہوئے


جب تم مجھ سے فون پہ باتیں کرتے ہو


اے میری جان کے دشمن


اداسی ٹھہر جاتی ہے

کہا تھا نا


محبت یاد رکھتی ہے



Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets