Pages

Thursday, 28 May 2015

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں




کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں

سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی

اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں

ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ

ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں

نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر

بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں

شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے

کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں

ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر

ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں

دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے

عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں

No comments:

Post a Comment