Pages

Thursday, 14 May 2015

اک آگ تھی کہ جلتے رہے جس میں عمر بھر


















ہم نے تو خیر تجھ سے شکایت کبھی نہ کی
ایسا نہیں کہ دل نے بغاوت کبھی نہ کی

کس حال میں ہیں تیرے ستائے ہوئے غریب
تو نے یہ پوچھنے کی زحمت کبھی نہ کی

محسوس کیا کرے گا وہ اوروں کے درد کو
جس نے خود اپنے آپ سے الفت کبھی نہ کی

چاہا ہے میں نے جس کو بڑی شدتوں کے ساتھ
اس طرح سے اس نے مجھ سے محبت کبھی نہ کی

ہر داستان تیری بہت غور سے سنی
لیکن بیان اپنی حکایت کبھی نہ کی

اک خواب تھا کہ اپنی شبوں پر رہا محیط
کیا خواب تھا کسی سے وضاحت کبھی نہ کی

اک آگ تھی کہ جلتے رہے جس میں عمر بھر
اک درد تھا کہ جس میں خیانت کبھی نہ کی

No comments:

Post a Comment