Pages

Saturday, 1 August 2015

ٹھہر گیا ہے نگاہوں میں آخری منظر














تمہارے پاس سے میں 

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں

چھوڑ آیا ہوں

وہ مُشک بار سی سانسیں

وہ دھیمی دھیمی مہک

وہ خوشگوار سی حدت

ہر ایک شئے 

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

وہ میرے چہرے کو تکتی ہوئی 

غزل آنکھیں

وہ جُھک کے اُٹھتی ہوئی

دلنواز پلکیں

وہ بےقرار نگاہیں

وہ سوگوار نظر

ہر ایک شئے

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

میرے لبوں پہ وہ گبھرا کے

ہاتھ رکھ دینا

وہ ان کہی میں ہر اِک بات

مجھ سے کہہ دینا

تمہارے پاس سے میں

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں

چھوڑ آیا ہوں

کتابیں فیض کی بکھری ہوئی

سرہانے پر

نفی میں ہلتا وہ سر

بے خودی میں شانے پر

ہر ایک منظرِ زیبا

ہر ایک ساعتِ خوش

ہر ایک شئے 

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

وہ مہکتے ہوئے لب

وہ ڈبڈبائی نظر

وہ الوداعی تبسم سا

زرد چہرے پر

ٹھہر گیا ہے نگاہوں میں

آخری منظر

تمہارے پاس سے میں

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں۔

No comments:

Post a Comment