Pages

Thursday, 3 September 2015

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی


زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے۔

No comments:

Post a Comment