Pages

Saturday, 17 October 2015

کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا



کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا
یہ اور بات ہے اب وہ ہمارا نہیں رہا

کچھ دن تمھارے لوٹ کے آنے کی آس تھی
اب اس امید کا بھی سہارا نہیں رہا

رستے مہ و نجوم کے تبدیل ہو گئے
ان کھڑکیوں میں ایک بھی تارا نہیں رہا

سمجھے تھے دوسروں سے بہت مختلف تجھے
کیا مان لیں کہ تو بھی ہمارا نہیں رہا

ہاتھوں پہ بجھ گئی ہے مقدر کی کہکشاں
یا راکھ ہو گیا وہ ستارہ نہیں رہا

No comments:

Post a Comment