Pages

Thursday, 26 November 2015

میں تو سوچ رھی تھی کہ مجھے سب کچھ بھول چکا ھے



میں تو سوچ رھی تھی کہ مجھے سب کچھ بھول چکا ھے 
وہ جو ادھورے خوابوں کی کہانی تھی 
وہ جو میں نے تمہیں سنانی تھی 
جب 
وقت نے اپنی سانسوں سے روح کے بدن پر لکھا تھا 
وقت نارسا کا مہر 
اُن شناسا باتوں کا زہر 
جو کبھی تم نے مجھ میں انڈیلا تھا 
بڑی چاہ سے جسے میں نے سنبھالا تھا 
مدت بعد 
یہ آج مجھے کس مقام پہ لے آئے ھو 
ایسے کہ 
نہ آئے ھی ھو اور نہ گئے ھو تم 
نہ اپنے ھی ھو اور نہ پرائے ھو تم 
میری جان 
ادھورے خوابوں کی کہانیاں ادھوری ھی رھنے دو 
اور اب 
اٍن ادھوری کہانیوں کو بلاعنوان ھی رھنے دو

No comments:

Post a Comment