Pages

Thursday, 26 November 2015

ھو سکے تو اپنے آنے سے پہلے خود کوبھیج دو



میرے اندر انتظار اُگ رہا ہے

خاموشی نے صداؤں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے


ہوائیں مجھے چھو کر گزرتی ہیں تو فضا میں جیسے بربط بجنے لگتے ہیں


میرے دوپٹے کا آنچل میرے سینے پر ٹھہرتا ہی نہیں


میں بااختیار ہو کر بھی بےاختیار سی ہوں


شاید یہ موسم ہی بے اختیاریوں کا موسم ھے


سحر زدہ موسم کہ جس کے ایک ایک لمحے میں جیسے جادو لکھا ہوا ہے


میرے ساحر


یہ جادو مجھے بھی تو سکھا دو


تا کہ میں بھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں جب جی چاہے تمہاری صورت دیکھ 


سکوں

نا جانے یہ اسی فضا کے سحر کا اثر ہے کہ 


تیری آشنا سانسیں مجھ سے باتیں کرتی رھتی ھیں


یا پھر یہ خود کلامی کا موسم ھے 


میں خود سےصرف تمہاری باتیں کرتی ہوں


یا پھر یہ لپٹ جانے کا موسم ہے کہ میں اپنے بدن کے سائے سے


لپٹی رہتی ہوں


ہو سکتا ہے کہ یہ سمٹ جانے کا موسم ہو کہ میں تمہارے خیال میں


سمٹی رہتی ہوں


میرے ساحر


سنو


ھو سکے تو اپنے آنے سے پہلے خود کوبھیج دو 


شاید سارے موسم بدل جائیں!


No comments:

Post a Comment