Pages

Thursday, 28 April 2016

موسمِ عشق تیری بارش میں

جانے کیسے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے

کچھ نئے رنگ ہیں محبت کے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے


موسمِ عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے

جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے

تجھ سے ملنے کے اور بچھڑنے کے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے

جب ہوا کا مزاج برہم تھا
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے

آرزو کے حسین پنجرے میں
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے

ہم نے دل کی کتاب میں تیرے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے

تیرے دکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے

میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا
اور اپنے سنبھال کر رکھے

No comments:

Post a Comment