Pages

POETRY (URDU SCRIPT)


محبت جب لہو بن کر
رگوں میں سرسرائے تو
کوئی بھولا ہوا چہرہ، اچانک یاد آئے تو
قدم مشکل سے اُٹھتے ہوں
ا رادہ ڈگمگائے تو، کوئی مدھم سے لہجے میں
تمھیں واپس بلائے تو، ٹھہر جانا، سمجھ لینا
کہ اب واپس پلٹنے کا سفر آغاز ہوتا ہے

کبھی تنہائیوں کا درد آنکھوں میں سمائے تو
کوئی لمحہ گزشتہ چاہتوں کا
جب ستائے تو، کسی کی یاد میں رونا تمھیں بھی خون رُلائے تو
اگر تمھارا دل تم سے، کسی دم روٹھ جائے تو
کبھی
انہونیوں کا ڈر پرندوں کو اُڑائے تو
ہوا جب پیڑ سے، زرد سا پتّہ گِرائے تو
ٹھہر جانا، سمجھ لینا
کہ اب واپس پلٹنے کا سفر آغاز ہوتا ہے ۔۔۔



*******************************

میں کہتی تھی مجھے ٹُوٹے ستارے آزماتے ہیں
وہ کہتا تھا نہیں اکثر سہارے آزماتے ہیں
میں کہتی تھی کوئی صحرا سُلگتا ہے میرے اندر
وہ کہتا تھا کوئی دریا بِلکتا ہے میرے اندر
میں کہتی تھی مجھے دریا کنارے یاد رہتے ہیں
وہ کہتا تھا مجھے سُلگتے شرارے یاد رہتے ہیں
میں کہتی تھی چلو رشتوں کی گرہ کھول دیتے ہیں
وہ کہتا تھا چلو آنکھوں میں دریا گھول دیتے ہیں
میں کہتی تھی کہانی میں کوئی کردار باقی ہے؟
وہ کہتا تھا محض اک خواب کا انگار باقی ہے
میں کہتی تھی میں خوابوں کا بھلا عنوان کیا رکھوں؟
وہ کہتا تھا اِسے تم ذات کا زندان کہہ دینا
میں کہتی تھی کہ میرے بعد سانس کیسے لیتے ہو
وہ بولا خار سا سینے کو چُھو کر ٹوٹ جاتا ہے
میں کہتی تھی مجھے کچھ پَل تو خود میں سانس لینے دو
وہ بولا تھا کہ جاناں اِس حصارِ ذات سے نکلو
میں کہتی تھی کہ کیا ہوگا اگر یہ وقت تھم جائے
وہ بولا کچھ نہیں بس یہ لمحے صدیاں رقم ہوں گے
میں بولی تم نے میری آنکھوں میں حسرت کوئی دیکھی؟
وہ بولا ہاں سُلگتے زخم کی نسبت کوئی دیکھی
میں بولی میں کہوں کہ میں نے دیکھا کیا اِن آنکھوں میں
بہت ہی درد سے بولا، بُھلا دو جو ہے آنکھوں میں
میں کہتی تھی میرے ساحر کی آنکھیں بولتی کیوں تھیں؟
وہ کہتا ہے تمہیں خاموشیاں پڑھنے کی عادت تھی
میں کہتی تھی میرے لہجے کی شدت بھول جاؤ گے؟
وہ میری بات پر چونکا مگر کُچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی، بُت کدوں میں کس طرح دن رات کرتے ہو؟
وہ بولا، بت شکن ہوں میں سو خود کو توڑ دیتا ہوں
میں کہتی تھی کہ ہم تم خاک ٹھہریں گے محبت میں
وہ بولا ہاں یہی سچ ہے نہ میں پارس نہ تُو سونا
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے کُہر کب جائے گی آخر؟
وہ بولا جس لمحے سینے سے آخر سانس جائے گی
میں کہتی تھی سُلگتی ہیں جبینوں میں کیوں تقدیریں؟
وہ بولا آستانوں میں دیے جلتے ہی رہتے ہیں
میں کہتی تھی کہ کب صحرا سے گزرے گا وہ بنجارہ
وہ بولا جب اُسے رشتوں سے کٹ کر ہارنا ہوگا
میں کہتی تھی درختوں کے لِبادے زرد کیوں ٹھہرے؟
وہ بولا کہ خزاں ہونا ہر اِک جنگل کی قسمت ہے
میں کہتی تھی کہ چہروں میں کوئی اپنا نہیں ملتا
وہ بولا کہ کئی چہرے مگر اپنوں میں ملتے ہیں
میں کہتی تھی کناروں پر دِیے اب کیوں نہیں جلتے؟
وہ بولا کہ کناروں نے ہوا سے دوستی کرلی
میں کہتی تھی ہوا کے ہاتھ میں کیا ہے بھلا رکھا؟
وہ بولا جگمگاتے سب دیوں کا فیصلہ رکھا
میں کہتی تھی کہ دریا کی اُداسی سے کہوں گی کیا؟
وہ بولا بس میری آنکھیں اُنہیں پڑھ کر سُنا دینا
میں کہتی تھی میرے آنگن میں کوئی پیڑ جلتا ہے
وہ بولا غور سے دیکھو کہیں نہ ذات ہو میری
میں کہتی تھی کہ زِنداں میں صبا شب بھر نہیں آتی
وہ بولا اور یہاں تو سانس اکثر نہیں آتی
میں کہتی تھی میرے سینے میں سانسیں کم ہیں تیری یاد زیادہ ہے
وہ بولا گر یہی سچ ہے تو تُو برباد زیادہ ہے
میں کہتی تھی تیری سانسوں میں میرا دل دھڑکتا ہے
وہ بولا ہاں میرا دل زَد پہ طوفانوں کی رہتا ہے
میں کہتی تھی کہ آنکھوں میں تیری یہ روشنی کیسی؟
بہت بے ساختہ بولا کہ تیری روح تک میں خود کو پایا ہے
میں کہتی تھی میری آنکھیں تبھی محروم مدھم ہے
وہ تھوڑے وقف سے بولا میرے اندر بسی ہو تم
میں کہتی تھی بھلا کیا پاؤ گے مجھ سے جدا ہوکے
وہ بولا گُم تھا تیرے ساتھ مجھے اب خود سے ملنا ہے
میں کہتی تھی چلو اُنگلی پہ اپنے درد کو گِن لیں
وہ بولا درد کی شِدّت سے شریانیں نہ کٹ جائیں
میں کہتی تھی سناؤ حال اُس شب کا جب ہم بچھڑے تھے
وہ بولا، تھی وہ ایسی شب میں اُس شب ٹوٹ کے رویا
میں کہتی یاد ہے اُس دن تیرے کاندھے پہ روئی میں
وہ بولا آج تک شانے تیرے آنسو سے گھائل ہیں
سُنو پھر تم پہ کیا گزری وہ خوابِ زندگی کھو کر
کہا کل اپنی آنکھوں کو بہت بے جان دیکھا ہے
کہو اُس عشق کی بابت بھلا کیا حَد رہی ہوگی
کہا وہ عشق جیسے رُوح کا سرطان دیکھا ہے
کہو پھر سے بچھڑنے کی تمہیں منظور یہ ہوگا؟
!کہا جینے کی خواہش کو کبھی قربان دیکھا ہے
میں کہتی تیرے نقشِ پا میرے رستوں پہ اب بھی ہیں
وہ بولا میرے رستوں پہ بھی یہ دُکھ درد حائل ہیں
میں کہتی تھی کہ ذرّوں میں بھی کوئی حُسن دیکھا ہے؟
وہ بولا ایک ذرّے میں کئی ماہتاب دیکھے تھے
کہا میں نے کہ کب یہ زندگی خوشبو لگی تم کو؟
وہ بولا بے خیالی میں تجھے جب چھو لیا میں نے
میں کہتی تھی کہ تم نے ڈوبتا سورج کبھی دیکھا؟
وہ بولا ہاں تیری آنکھوں کو اکثر ڈوبتے دیکھا
میں کہتی تھی کوئی چہرہ جو تجھ کو یاد ہو اب تک؟
وہ بولا اِک کنول رخ پر بہت ساحر سی آنکھیں تھیں
میں کہتی خواب کے مقتل کو کیسے جانتے ہو تم
وہ بولا یوں کہ تیری آنکھوں میں اِک شام کاٹی ہے
میں کہتی تھی اذّیت کے کسی لمحے سے واقف ہو؟
وہ بولا جس لمحے جاناں تُو مجھ سے دور ہوتا ہے
میں کہتی تھی بھلا اب داؤ پہ کیا کچھ لگایا ہے؟
وہ بولا کچھ نہیں تھا پاس، میں خود کو ہار آیا ہوں
میں کہتی کب سمندر چپ تیری دھڑکن کو سنتا ہے؟
وہ بولا جب بکھرتا ہے کنارا تیرے لہجے پر
میں کہتی تھی مجھے دن کے کنارے بوجھ لگتے ہیں
وہ بولا ہاں مجھے بھی شام سے اب خوف آتا ہے
میں کہتی خوابوں کی دہلیز پہ کیوں اب بھی جاتے ہو؟
وہ بولا اس لئے کہ نیند کا دَر وا نہیں ملتا
میں کہتی تھی کہ خوابوں کا بدن کیوں کانچ جیسا ہے؟
وہ بولا اس لئے جاناں کہ حسرت کا لہو جھلکے
میں کہتی تھی کبھی ایسا ہوا کہ نیند ٹوٹی ہو؟
وہ بولا ہاں اُسی لمحے، مجھے جب یاد کرتی ہو
کہا میں نے کہ میری جاں، تیری یادیں مُسلسل ہیں
وہ بولا کہ اسی باعث یہ رَتجگے مُسلسل ہیں
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے تمہیں آواز دیتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے آنسو بکھرنے کی کوئی آواز آتی ہے
میں کہتی رات کے سینے پہ میں سر رکھ کے روتی ہوں
وہ بولا ہاں سُنا ہے چاند پچھلی شب کو رویا ہے
میں کہتی تیرے ماتھے پر دُعائیں لکھتی رہتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے سانسیں تیری محسوس ہوتی ہیں
میں کہتی تھی کہ دھڑکن کا ہے دل سے فاصلہ کتنا؟
وہ کچھ پل سوچ کے بولا خدا اور اِک دُعا جتنا
میں کہتی تھی لگاؤ اور دُعا کا رابطہ کیا ہے؟
وہ بولا بس وہی جو روحوں کا جسموں سے ناطہ ہے
میں کہتی روح کو اور جسم کو کیا جانتے ہو تم؟
کہا اُس نے جدائی جسم کی قسمت، محبت روح کی قسمت
میں کہتی تھی، سُنو ساحر مجھے تم سے محبت ہے
وہ بولا جان لے لے گی لگاؤ میں جو شدّت ہے
میں کہتی تھی چلو کاتِب سے کہہ کر مانگ لوں تم کو
وہ میری بات پر چونکا مگر کچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی تھی دریچوں پر ہَوا کو کب بلاؤ گے؟
وہ بولا جس لمحے اُمید کی شمعیں جلاؤں گا
میں کہتی تھی کہ میرا شاہِ من اب کیوں نہیں ملتا
وہ کہتا تھا کہ اب دربار دل کا جو نہیں سجتا
میں کہتی تھی تیری آنکھیں بھلا کیوں کانچ جیسی ہیں
وہ بولا اِس لئے جاناں کہ پہلو میں تیرے اتریں
میں کہتی تھی میں شب بھر چاند کے ہمراہ چلتی ہوں
وہ بولا رات بھر تارے تبھی جلتے ہیں بجھتے ہیں
میں کہتی تھی ملے جب ہم وہی قِصّہ تو دوہراؤ
وہ آنکھیں مُوند کر بولا بڑی لمبی کہانی ہے
میں کہتی تھی کہانی کو بھلا کس موڑ پر چھوڑیں گے؟
وہ بولا جب یہ دو کردار رشتہ سانس کا توڑیں گے
میں کہتی تھی کہ ہر لمحہ یہ دل میں وسوسہ کیوں ہے؟
وہ بولا تھا پرندوں سے بھی نازک دل تمہارا ہے
میں کہتی تھی کہ اپنے آپ اُداسی کا میں گوشہ ہوں
وہ بولا غم زدہ ہوں میں مجھے گوشہ نشیں کر دو
میں کہتی تھی تیرے لہجے کی رم جِھم کا سبب کیا ہے؟
وہ بولا اِس لئے کہ جَل ترنگ دل جھیل میں بکھرے
میں کہتی تھی عقیدت کیا؟ عبادت کس کو کہتے ہیں؟
کہا جُھکتی جبینوں کو، اُٹھے ہاتھوں کو کہتے ہیں
میں کہتی تھی جبین و ہاتھ کا تعلق بھلا کیا ہے عبادت میں؟
وہ کہتا تھا کہ لکھی جاچکی دونوں پہ تقدیریں
میں کہتی ہاتھ دو اپنا، جبیں رکھ دوں ہتھیلی پر
وہ کہتا تھا عقیدت یہ عبادت ہی نہ بن جائے
میں کہتی تھی سُنو ساحر میری حسرت تیری آنکھیں
وہ کہتا تھا میں لکھتا ہوں تیری تقدیر یہ آنکھیں
میں کہتی کیا تیرے سینے میں اب بھی زخم جلتے ہیں؟
وہ بولا ہاں کبھی بوجھل کبھی مدھم سے جلتے ہیں
میں کہتی تھی سُنو ساحر یہ سارے غم مجھے دے دو
وہ بولا پھر کہو گی آنکھوں کے سب نَم مجھے دے دو
میں کہتی ہاں اِن آنکھوں میں ہو نَم اچھا نہیں لگتا
کہا سینے سے دُکھ ہوں کم مجھے اچھا نہیں لگتا
میں کہتی تھی جُنوں اور انتہا اچھے نہیں ہوتے
وہ بولا اِن کے بن جذبے کبھی سچے نہیں ہوتے
میں کہتی تھی چلو اِتنا کہو دُکھ میرے بانٹو گے؟
بہت حیرت سے تب بولا، تمہیں کس بات کے دُکھ ہیں؟
میں کہتی بے پناہ یادیں تیری دُکھ درد ہیں میرا
وہ بولا راہ چلتی یادوں کو کیوں گھر بُلاتے تھے؟
میں کہتی تھی تمہاری آنکھوں کو لکھنے کی چاہت تھی
وہ بولا تھا یہ افسانے کتابوں میں ہی سجتے ہیں
میں کہتی تیری چاہت کی فِضا میں پنکھ بھروں کیسے؟
وہ بولا تھا کہ پنکھڑی کُونج کے ٹوٹے ہوئے پَر سے
میں کہتی تھی سمندر میں خوشی کے کس طرح اتروں؟
کہا بے آب ماہی کا سا پیراہن پہن دیکھو
میں کہتی تھی کہ نَس نَس میں لہو کا زہر پھیلا ہے
کہا اِس زہر کا تریاق ہے بس موت کے بس میں
میں کہتی تھی چلو اتنا تو ہوگا درد کی زنجیر ٹوٹے گی
وہ بولا خوابِ زیست کی تیرے تعبیر ٹوٹے گی
میں کہتی تھی تو کیا یہ طے ہے میرے خواب جھوٹے تھے؟
وہ بولا ہاں یہی طے ہے تُہارے لفظ جھوٹے تھے
میں کہتی تھی سَرابی ہم تھے یا دنیا ہی دھوکہ تھی؟
وہ بولا بات ہے اتنی تمہاری پیاس زیادہ تھی
میں کہتی پیاس ایسی ہے کہ دریا خود پُکارے گا
وہ بولا ہار جاؤگی سُنو واپس پلٹ جاؤ
میں کہتی تھی کہ میرے بعد تم تنہا نہ رہ جاؤ؟
وہ بولا حلقہء یاراں بہت ہے ساتھ دینے کو
میں کہتی تھی بہت ممکن یہ دُکھ جان لے جائے
وہ کہتا تھا تمہیں کتنا ہے دُکھ میں آزماؤں گا
میں کہتی تھی کہو اتنا کہاں تک آزماؤگے؟
وہ بولا بس وہاں تک، جب تم اپنی جاں سے جاؤگے
پھر اُس کے بعد کِتنی دیر تک میں کُچھ نہیں بولی

*******************************

کچھ خواب میری آنکھوں نے پلوُسے یوں باندھ رکھے ھیں 
پلکو ں کی منڈیروں پہ اشکو ں نے جیسے تھام رکھے یں 
دیکھتی ہوں تم یہی ہو پاس میرے 
بے خودی کے سارے موسم سبز بارشوں میں بھیگے میرے پاس پڑے ہیں 
تھماری روشن آنکھیں محبت کے نور سے اور جلتی جاتی ہیں 
تم اپنی دھن میں جانے کیا کیا کہے جاتے ہو 
سات سمندر اپنی ہی دھن میں بہے جاتے ہو 
وہی شب و روز کی تفصیل 
وہی وقت اور کام کی تاویل 
اور پھر میری یاد کی تمثیل 
میں ھنس پڑتی ہوں اور سارے منطر بدل جاتے ہیں 
یوں لگتا ہے تم نہین وہاں کوئی اور پل ہوتے ہیں 
اداس نامراد سی رات آنگن میں اُتر آتی ہے 
ہر طرف تمھاری خوشبو سی سرسراتی ہے 
میں خواب میں ہی اپنے وھم سے بھاگنے لگتی ہوں 
بے قراری سے تمہیں یہاں وہاں ڈھونڈنے لگتی ہوں 
شکر خواب تھا کہہ کرخود کو بہلانے لگتی ہوں 
پھر 
وقت کے ماتھے پر امیدٍ وصال کا ایک پل ٹھہر جاتا ہے 
دشتٍ خواب میں لمحہ جیسے پیاس کا ٹھہر جاتا ہے 
شاخٍ ہجر پھر کانپنے لگتی ہے 
نا امیدی کانٹے بونے لگتی ہیں 
نیندوں میں آج تمھاراکہیں نشاں نہ تھا 
ڈاک میں بھی تمھارا کہیں اتہ پتہ نہ تھا 
کاش یہ خواب میں ہی ہوا ہو 
اور مجھے اب آنکھیں کھولنا ہو 
پھر سارے منطروں نے بدلنا ہو 
منظر بدل گئے جاناں 
میں نے یہ کیا سُنا کہ میری آنکھیں حیرت کدہ ہیں 
سُن کے آواز تمھاری میری سماعتیں ماتم کدہ ہیں 
اٍس برس بھی تم نہ آ سکو گے 
اچھا ۔ ۔ کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے میری آواز دھندلا جاتی ہے 
اگلے برس تو آ سکو گے ۔ ۔ کہتے ہوئے میری امید سبز ہو جاتی ہے 
شاید ۔ ۔ ۔ دیکھو ۔ ۔ ُسنتے ہی انتظار کی ایک فصل اُگنے لگتی ہے 
میرے پلوُ سے بندھے سب خواب گرنے لگتے ہیں 
پلکو ں کی منڈیروں پہ رکھے اشک ٹوٹنے لگتے ہیں 
نہیں جانتی مجھے تم سے یہ کیسی محبت ہے 
اٍس رشتے کا نام کیا ہے ؟ 
اٍسے کب تک نباہ سکو نگی 
تمہیں کب تک چاہ سکو نگی



*******************************
















بہت کچھ میں نے کہنا ہے
بہت کچھ تو نے کہنا ہے
دلوں میں جتنے جذبے ہیں
                                                           لبوں پر ان کو لانا  ہے
  
مگر یہ ماجرا کیا ہے
کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں
نہ مجھ سے بات ہوتی ہے
نہ تم اظہار کرتی ہو
تمہیں معلوم ہے سب کچھ
             
                                                       جو میرے دل میں پنہاں ہے     

 
تمہارے دل کی کیفیت سے
میں بھی اٌگاہ ہوں لیکن
مجھے خاموش رہنا ہے
تمھیں خاموش رہنا ہے
مگر یہ کب تلک ہوگا
ہمیں خاموش لمحوں نے
جدا اگر کر دیا تو پھر ؟؟
مجھے تم سے گلہ ہوگا
تمھیں مجھ سے گلہ ہوگا
ہمیں اب ہجر کے لمحات سے خود کو بچانا ہے
-دلوں میں جتنے جذبے ہیں لبوں پر ان کو لانا ہے


 *******************************

پھر وہی درد ساجاگا ہے رگوں میں میری
پھر وہی آہ سی نکلی ہے سینے سے
پھر وہی خواب سے ٹوٹے ہیں میری آنکھوں میں
پھر وہی درد کی تلخی ہے مری باتوں میں
پھر وہی اشک سے ٹھہرے ہیں میری پلکوں پہ
پھر وہی رات سی جیون میں اتر آئی ہے
پھر وہی آخری منظر ہے میری نظروں میں

آج پھر شام ڈھلے
“تم مجھے یاد آئے ہو


*******************************

چلو ایک دوسرے کی خواہشوں کی دھوپ میں
جلتے ہوئے آنگن کی ویرانی میں
آنکھیں بند کر لیں اور برس جائیں
یہاں تک ٹوٹ کر برسیں کہ پانی
وصل کی مٹی میں خوشبو گوندھ لے
اور پھر سروں سے گذر جائے
زمیں سے آسماں تک ایک ہی منظر سنور جائے
ہمارے راستوں پر آسماں اپنی گواہی بھیج دے
خوشبو بکھر جائے
زمیں پاؤں کو چھو لے
چاندنی دل میں اتر جائے!!!!!!!!!!


*******************************

درد رسوا نہ تھا زمانے میں
دل کی تنہائیوں میں بستا تھا
حرف ناگفتہ تھا فسانہ دل
ایک دن جو انہیں خیال آیا

پوچھ بیٹھے : " اداس کیوں ہو تم " ؟
" بس یونہی " مسکرا کے میں نے کہا
دیکھتے دیکھتے سر مژگاں
ایک آنسو مگر ڈھلک آیا

عشق نورس تھا- خام کار تھا دل ؛
بات کچھ بھی نہ تھی مگر ہمدم
اب محبت کا وہ نہیں عالم
آپ ہی آپ سوچتا ہوں میں
دل کو الزام دے رہا ہوں میں
درد بے وقت ہوگیا رسوا

ایک آنسو تھا پی لیا ہوتا
حسن محتاط ہوگیا اس دن
عشق توقیر کھوگیا اس دن
ہائے کیوں اتنا بے قرار تھا دل



 *******************************














ابھی تو بات لمحوں تک ہے


سالوں تک نہیں آئی


ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی


ابھی تو بات لمحوں تک ہے


سالوں تک نہیں آئی


ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی


ابھی تو کوئی مجبوری خیالوں تک نہیں آئی


ابھی تو گرد پیروں تک ہے بالوں تک نہیں آئی


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اور جاتے ہیں


ابھی کاجل کی ڈوری سرخ گالوں تک نہیں آئی


زباں دانتوں تلک ہے زہر پیالوں تک نہیں آئی


ابھی تو مشک کستوری غزالوں تک نہیں آئی


ابھی روداد بے عنواں


ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی


مبادا نار ہو جائے یہ ہستی نور ہے اپنی


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


یہ رستہ پیار کا رستہ


رسن کا دار کا رستہ بہت د شوار ہے جاناں


کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی اک کہسار ہے جاناں


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


میرے بارے نہ کچھ سوچو، مجھے طے کرنا آتا ہے


رسن کا دار کا رستہ


یہ آسیبوں بھرا رستہ، یہ اندھی غار کا رستہ


تمہارا نرم و نازک ہاتھ ہو اگر میرے ہاتھوں میں


تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہیں میری مٹھی میں


تمہارا قرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں


یہ اندھے اور کالے راستے، پر نور ہو جائیں


تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے


تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے


اٹھا لو اپنا سایہ تو میری اوقات ہی کیا ہے


میرے بارے نہ کچھ سوچو


تم اپنی بات بتلاؤ


کہو تو چلتے رہتے ہیں


کہو تو لوٹ جاتے ہیں


کہو تو لوٹ جاتے ہیں



 *******************************

نئے پھولوں پہ رنگیں تتلیاں جب مسکرائیں تو
گئے موسم کی یا د یں جب تمھارا دل جلا ئیں تو
مجھے آواز دے لینا 


کسی ما نوس رستے پر کوئی جب تم صدا پاؤ
میری یادوں کی اپنے گھر میں جب تھوڑی جگہ پاؤ
مجھے آواز دے لینا 


گئے لمحوں میں میری قربتیں جب یاد آئیں تو 
کبھی راتوں میں میری آہٹیں تم کو ستا ئیں تو
مجھے آواز دے لینا 


کہیں ایسا نہ ہو میری سما عت تھک کے سو جائے
یہ میرا دل تمھارا تن کسی دوجے کا ہو جائے
تمھیں پانے کی حسرت یونہی دل میں گھٹ کے مر جا ئے
تمھیں احساس نہ ہو اور کوئی جاں سے گزر جائے
تم اس سے پیشتر مجھ پہ میری جاناں کرم کرنا
مجھے آواز دے لینا مجھے آواز دے لینا

 *******************************


ابھی کیا کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کیا سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کہ سر ِ فصیل ِ سکوت ِ جاں
کف ِ روز و شب پہ شرر نما
وہ جو حرف حرف چراغ تھا
اسے کس ہوا نے بجھا دیا ؟
کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا!
سر ِ شہر ِ عہد ِ وصال ِ دل
وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا
اسے دست ِ موج ِ فراق نے
تہہ ِ خاک کب سے ملا دیا ؟
کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا!


ابی کیا کہیں ۔۔۔ ابھی کیا سنیں؟
یونہی خواہشوں کے فشار میں
کبھی بے سبب ۔۔۔ کبھی بے خلل
کہاں، کون کس سے بچھڑ گیا ؟
کسے، کس نے کیسے بھلا دیا ؟


کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا۔۔



*******************************


چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بےکار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگان سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا


 *******************************

کہا اس نے محبت کے سبھی موسم نرالے ہیں
کہا میں نے محبت کی ہر اک شب میں اجالے ہیں


کہا اس نے محبت میں بہت سے خار ہوتے ہیں
کہا میں نے جنوں کے راستے دشوار ہوتے ہیں


کہا میں نے محبت وہم کے سو جال بنتی ہے
میں کہتا ہوں محبت خود یقیں کے پھول چنتی ہے


کہا اس نے محبت سب سہارے چھین لیتی ہے
کہا میں نے محبت روح کو تسکین دیتی ہے


کہا اس نے محبت اک خیال خام ہوتی ہے
کہا میں نے محبت دکھ بھری اک شام ہوتی ہے

 *******************************

اپنی خاطر جگے ہو، سوئے ہو
اپنی خاطر ہنسے ہو، روئے ہو
کس لیئے آج کھوئے کھوئے ہو
تم نے آنسو بہت پیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے، صرف میرے ہو کر رہو

حسن ہی حسن ہو، ذہانت ہو
عشق ہوں میں، تو تم میری محبت ہو
تم مری بس مری امانت ہو
جی لیئے،جس قدر جیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو

رہتے ہو رنج وغم کے اندھیروں میں
دُکھ کے، آسیب کے بسیروں میں
کیسے چھوڑوں تمہیں اندھیروں میں
تم کو دے دوں گا سب دیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو

تم ازل سے دُکھوں کے ڈیرے ہو
چاہے خود کو غموں سے گھیرے ہو
جب سے پیدا ہوئے ہو میرے ہو
آج کھولیں گے لب سیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو

اب مجھے اپنے درد سہنے دو
دل کی ہر بات دل سے کہنے دو
مری بانہوں میں خود کو بہنے دو
مدتوں غم خود سیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو



*******************************

کبھی جو کر سکو ایسا 
تو کوشیش کر کے دیکھنا ۔۔۔۔۔۔

مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہنا ۔۔۔۔۔
فقظ میری طلب کرنا ۔۔۔۔۔۔

پھر مجھ سے دور ھو جانا
میں کہوں ۔۔۔۔۔ بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔

تم روز دعاؤں میں مانگنا ۔۔۔۔۔۔
میں تم سے ھر رشتہ توڑ لوں

تم سے ھر وہ حق چھین لوں ۔۔۔۔۔
کہ تمھارے پاس اگر وہ ھو

تو نقصاں کسی کا نہ ھو پر ۔۔۔۔۔۔
شاید تم جی لو ۔۔۔۔

پر تم چپ رہ کہ ہر غم پی لو ۔۔۔۔۔
اور ایسا بھی کرنا کہ ۔۔۔۔۔

مگر نہیں ۔۔۔۔
تم ایسا کر نہیں سکتی ۔۔۔۔

میری جگہ خود کو رکھ نہیں سکتی ۔۔۔۔
تم مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہ ھی نہیں سکتی

*******************************

اس کی آنکھوں نے کہی کیسی کہانی مجھ سے
رات بھر روٹھی رہی رات کی رانی مجھ سے

موسم ہجر میں ممکن ہے میری یاد آےَ
آج تم لے لو کویَ تازہ نشانی مجھ سے

کیا کویَ سوچنا اور کیا کویَ شجرہ پڑھنا
اس کے بارے میں سنو ہر بات، زبانی مجھ سے

سامنے اس کے میں خاموش کھڑی رہتی ہوں
چھین لی وقت نے کیوں شعلہ بیانی مجھ سے

ہجر میں اس کی جلوں راکھ کی صورت بکھروں
کس لیےَ روٹھا ہے ساون کا یہ پانی مجھ سے

وہ دھنک رنگ وہ خوشبو تو کہاں چھوڑ آیَ
پوچھتی ہے یہی ہر شام سہانی مجھھ سے

میں تو ہاتھوں پہ دھنک رنگ لیےَ بیٹھی تھی
ہجر نے چھین لی پوشاک بھی دھانی مجھھ سے

ہجرتوں نے میری پہچان مٹا دی نیہا
اب نہیں ہو گی کویَ نقل مکانی مجھ سے


*******************************


آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو

رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو


پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو

اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو


موجہ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے

پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو


قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ

مہرباں جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو


ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے

کُوبہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو


عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری

کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو


کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں

نکہتِ جاں ہے انھیں دشت ودمن کی خوشبو


اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے

صحنِ زنداں میں اِنھیں دشت وطن کی خوشبو


 *******************************


اسیرِ دشتِ وفا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں کو بس دعا کہنا

یہ کہنا کہ رات گزری ہے اب بھی آنکھوں میں
تہماری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا

یہ کہنا کہ چاند نکلتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں شب کا اب وہ مزا کہنا

یہ کہنا کہ ہم نے ہی طوفان میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا

یہ کہنا کہ تمہیں یاد کرکے بکھر گیا ہوں میں
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا



*******************************

ختم اپنی چاہتوں کا سلسلہ کیسے ہوا
تو جو مجھ میں جذب تھا جدا کیسے ہوا

وہ جو صرف تیرے اور میرے درمیاں کی بات تھی
آئو سوچیں شہر اس سے آشنا کیسے ہوا

چبھ گئی سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دل ٹوٹنے کا حادثہ کیسے ہوا

جو رگ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رخ پھیر کے
سوچتا ہوں اس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا


*******************************

چند لمحے بچے ہیں تیرے میرے ساتھ کے
ممکن ہیں بچھڑ جائیں بنا ملاقات کے
کہاں آنسؤں کی سوغات ہو گی
نئے لوگ ہونگے نئی بات ہو گی
میں ہر حال میں مسکراتی رہوں گی
گر تمہاری محبت جو میرے ساتھ ہو گی
چراغوں کو محفوظ رکھنا آنکھوں میں
بڑی دور تک اندھیری رات ہو گی
مسافر ہوں میں بھی مسافر ہو تم بھی
پھر کہیں کسی موڑ پر ملاقات ہو گی

*******************************

کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں چاند
اور تُم چاندنی میری
مگر جب چاند چھپ جائے
کہو پھر چاندنی کیسی؟

کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں پھول
اور تُم پھول کی خوشبو
مگر جب پھول مرجھائے
کہو خوشبو بھلا کیسی؟

کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں دل
ہو تم دھڑکن!
مگر دل ٹوٹ جائے تو
کہو پھر دھڑکنیں کیسی


کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں آس
اور تم زندگی میری
مگر جب آس ٹوٹے تو
کہو پھر زندگی کیسی؟

*******************************

محبت کب کتابوں میں لکھی کوئی حکایت ہے؟
محبت کب فراقِ یار کی کوئی شکایت ہے؟


محبت ایک آیت ہے جو نازل ہوتی رہتی ہے
محبت ایک سرشاری ہے، حاصل ہوتی رہتی ہے


محبت تو فقط خود کو سپردِ دار کرنا ہے
انالحق کہ کے اپنے عشق کا اقرار کرنا ہے

محبت پر کوئی نگران کب مامور ہوتا ہے؟
محبت میں کوئی کب پاس اور کب دور ہوتا ہے؟


مرا دل ، عشق کے شعلے میں مدغم ہونے لگتا ہے
محبت کے سمندر میں تلاطم ہونے لگتا ہے


مجھے لگتا ہے جیسے ابرِ اُلفت چھانے والا ہے
میں جس کا منتظر رہتا ہوں ، شاید آنے والا ہے


محبت میری فطرت ہے، محبت میرا جیون ہے
محبت میرے ہاتھوں کی امانت، تیرا دامن ہے

*******************************

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتا ب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سے لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمی شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسووں سے ہرا کرو

*******************************

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں

اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں

عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں

شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچےّ دل سے دعا مانگ لوں

یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں

اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں

جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں 

*******************************

میر ے مولا!
آج ذرا اس تپتے دن کو 
ٹھنڈا کر دے 
چھوٹا کر دے 
اِسے گھٹا دے 
بادل کے ٹکڑے سے کہہ کر 
بارش کردے 
بوندیں آئیں 
پوَن چلے 
اور سورج گزرے جلدی سے 
مغرب آجائے 
میرے مالک !
آج بھی اس نے 
میری خاطر 
مجھ کو پانے کی چاہت میں 
تیرا روزہ رکھا ہے۔ ۔ ۔

*******************************


آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر 
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم 

ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب 
راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم 

چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا 
دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم 

آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر 
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم 

کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی 
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم

*******************************

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو 
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے 
اس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کردو 
تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو 
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کردو 
اس کے سائے میں مرے خواب دھک اُٹھیں گے 
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو 
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر 
اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو 
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے 
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے تھل کر دو 
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی 
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجل کردو 
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے 
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کردو 
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے 
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کردو 
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں 
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کردو

*******************************

باندھ لیں ہاتھ سینے پہ سجالیں تم کو 
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو 
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں 
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو 
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو 
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو 
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور 
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو 
کیا عجب خواہشیں اُٹھتی ہیں ہمارے دل میں 
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو 
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے 
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو

*******************************

ھیگی آنکھوں والی لڑکی 
میری طرف جب دیکھتی ہے تو 
من میں جل تھل کر جاتی ہے 
مجھ کو پاگل کرجاتی ہے

*******************************

جب سے یہ پیغام ملا ہے 
جاناں! تم آنے والی ہو 
موسم نے سارے گھر کی ترتیب بدل کر رکھ ڈالی ہے 
چوکھٹ پہ اک چاند بھی آکر بیٹھ گیا ہے 
کئی ستارے لاؤنج میں کب سے پڑے ہوئے ہیں 
کہتے ہیں کہ 
اس رستے سے تم گزرو گے 
ننھے منے کئی گلابوں کا کہنا ہے 
جتنے دن تم پاس رہو گے 
گھر کے ہر کونے میں آکر وہ مہکیں گے 
پھولوں نے مل کر سب کونے بانٹ لئے ہیں 
جگنوکب سے چھت پہ ، گھرکے 
ہر گوشے میں چمک رہے ہیں 
سورج اور بارش بھی کل سے سائبان پر ٹکے ہوئے ہیں 
دھیمے دھیمے چہک رہے ہیں 
شام تو کب سے کئی طرح کے موسم لیکر 
اس کمرے میں رُکی ہوئی ہے جس کمرے میں تم ٹھہرو گے 
تم آؤ گے تو یہ شام ہزاروں موسم 
سندر سندر سجی ہوئی آنکھوں کو دے کر 
کھو جائے گی 
پھر نہ کبھی واپس آئے گی 
اس سے پہلے کہ یہ شام بھی 
سارے موسم لے کر مجھ کو خالی کرکے کھو جائے 
تم آجاؤ ناں!
آبھی جاؤ۔ ۔ ۔

*******************************

جب غم مری دھڑکن مری باتوں سے عیاں تھا ، تو کہاں تھا
جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا 
اب آیا ہے جب ڈھل گئے ہیں سبھی موسم، مرے ہمدم 
جب تیرے لئے مرا ہر احساس جواں تھا ، تو کہاں تھا 
اب صرف خموشی ہے مقدر کا ستارہ ، مرے یارا 
جب لب پہ فقط تیرا فقط تیرا بیاں تھا، تو کہاں تھا 
اب آیا ہے جب کام دکھا بھی گیا ساون، مرے ساجن 
جب چار سو میرے لئے خوشیوں کا سماں تھا، تو کہاں تھا

*******************************

جو اس کے سامنے میرا یہ حال آجائے 
تو دکھ سے اور بھی ، اس پر جمال آجائے 
میرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا 
اگر خیال کو تیرا خیال آجائے 
ہر ایک شام نئے خواب اس پہ کاڑھیں گے 
ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے 
انہی دنوں وہ میرے ساتھ چائے پیتا تھا 
کہیں سے کاش میرا پچھلا سال آجائے 
میں اپنے غم کے خزانے کہاں چھپاؤں گا 
اگر کہیں سے کوئی اِند مال آجائے 
ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے 
ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈھال آجائے 
یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصی 
اگر وہ سامنے وقتِ زوال آجائے

*******************************

ذرا سا تو ٹھہر اے دل 
 ۔ ۔ ۔ !
ابھی کچھ کام باقی ہیں 
ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں 
ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو 
مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے 
ابھی اس جسم نے مجھ سے 
بہت سی بات کرنی ہے 
ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو 
مجھے اپنے بدن میں روح میں بھرنا ہے 
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں 
اکٹھے جن پہ چلنا ہے 
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں 
کہ جن کو پورا کرنے کا کوئی برسوں سے لمحہ ہی میسر آ نہیں پایا 
ابھی وہ وقت آنا ہے 
ابھی وعدے نبھانے ہیں 
ابھی کچھ گیت ایسے ہیں کہ جن کی دھن بنانی ہے
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے 
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں 
ابھی کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جو برسوں سے 
میرے ذہن میں تھیں 
سوچ رکھا تھا، اُسے اک دن بتاؤں گا 
بتانی ہیں 
ابھی کچھ قصے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں 
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے 
اُسے سب کچھ بتا کر 
بوجھ اس دل کا گھٹانا ہے 
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی 
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے روٹھا تھا 
ذرا سا تو ٹھہر اے دل 
ابھی اس کو منانا ہے 
ابھی ا س کو منانا ہے ۔ ۔ ۔

*******************************

کہیں چراغ ہیں روشن ، کہیں پہ مدھم ہیں 
تمہارے آنے کے امکان ہیں ، مگر کم ہیں 
میں لوٹتے ہوئے چپکے سے چھوڑ آیا تھا 
تمہارے تکیے پہ میر ے ہزار موسم ہیں 
تمہارے پاؤں کو چھو کر زمانہ جیت لیا 
تمہارے پاؤں نہیں ہیں ، یہ ایک عالم ہیں 
محبتیں ہوئیں تقسیم تو یہ بھید کھلا 
ہمارے حصے میں خوشیاں نہیں ہیں، ماتم ہیں 
کچھ اسی لئے بھی ہمیں دُکھ سے ڈرنہیں لگتا 
ہماری ڈھال ترے درد ہیں ، ترے غم ہیں 
ابھی کہو، تو ابھی، یہ بھی تم کو دے دیں گے 
ہمارے پاس جو گنتی کے ایک دو دَم ہیں 
ابھی کھلیں گے بھلا کیسے کائنات کے راز 
تری کمر میں کئی موڑ ہیں، کئی خم ہیں

*******************************
اب بھی اس کے خط آتے ہیں 
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے 
موسم ، خوشبو، گھر والوں کی باتیں کرکے، اپنے دل کا حال 
سبھاؤ سے لکھتی ہے 
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں 
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں 
اب بھی دھوپ نکل آتی ہے بادل چھانے لگ جاتے ہیں 
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہوکر لفظوں تک 
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے 
اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند ابھرنے لگ جاتا ہے 
شام اترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے 
اب بھی اس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے 
اب بھی خط کے اک کونے میں وہ اک دیپ جلا دیتی ہے 
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنادیتی ہے 
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں 
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے 
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں۔ ۔ ۔

*******************************

کس قدم ظلم ڈھایا کرتے ہو 
یہ جو تم بھول جایا کرتے ہو
کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر 
دل کی دھڑکن سنایا کرتے ہو 
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے 
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے ہو 
کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر 
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے ہو 
کیوں میرے دل میں رکھ نہیں دیتے 
کس لئے غم اُٹھایا کرتے ہو 
فون پر گیت جو سناتے تھے 
اب وہ کس کو سنایا کرتے ہو 
آخری خط میں اُس نے لکھا تھا 
تم مجھے یاد آیا کرتے ہو

*******************************

وہ کہتی تھی۔ ۔ ۔ !
جائیں جاکر شرٹ اتاریں 
دوسری پہنیں 
یہ تو میچ نہیں کرتی ہے 
جائیں جاکر ٹائی لگائیں 
پرَ پَل ٹائی 
شوز تو میں نے رات ہی پالش کر ڈالے تھے 
پھر یہ آپ نے کیوں پہنے ہیں 
دیکھیں Soxبھی ٹھیک نہیں ہیں 
پھر جب میں یہ سب کچھ کرکے چلنے لگتا ہے 
اس کے ہونٹوں پر Kissکرتا 
اور اسے بانہوں میں بھرتا 
مصنوعی گھبراہٹ اوڑھ کے سرگوشی میں مجھ سے کہتی 
ٹھہریں ٹھہریں 
ہوں ۔ ۔ ۔ ں۔ ۔ ۔ یہ خوشبو 
تھوڑا سا پرفیوم تو کرلیں 
مانا آپ بہت سادہ ہیں 
لیکن جاناں!
آفس جانے سے پہلے تو 
اپنے بال بنایا کیجئے 
اور اب 
میلی شرٹ اور ادھڑا کاج 
میلے کالر بٹن کھلے ہیں 
ٹائی نہیں ہے، شیو بڑھی ہے 
بال الجھے ہیں 
آنکھیں نیند سے بوجھل ہیںاور 
جوتوں پر بھی گرد جمی ہے 
اس حلیے میں گھر سے نکلا تو یاد آیا 
وہ کہتی تھی۔ ۔ ۔ !

*******************************

ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ 
ایک تصویر 
اور تصویر یہ بھیگے ہونٹ 
ایک صندل کی عنابی پنسل 
ایک بے ربط سا اکھڑا ہوا خط 
ایک عدد کارڈ 
جس کو چھونے سے تیری یاد چلی آئی ہے 
اور اس کارڈ میں رکھی ہوئی اکلوتی پلک 
جس سے مانوس دعاؤں کی مہک آتی ہے 
کسی گمنام سے شاعر کا ادھورا مصرعہ 
ایک پازیب سے بچھڑا ہوا اُجلا موتی 
اک مرجھائی ہوئی زرد چنبیلی کی کلی 
جس میں اب بھی تیری زلفوں کے بھنور لپٹے ہیں 
ایک بوسیدہ Question Paper
جس کے کونے پہ لکھا نام ابھی تازہ ہے 
شربتی کانچ کی ٹوٹی ہوئی نازک چوڑی 
ایک ٹوٹا ہوا ہلکا سا گلابی ناخن 
ایک گدلا سا ٹشو پیپر بھی 
جس پہ مہکے ہوئے اشکوں کے نشاں زندہ ہیں 
یہی دولت ہے یہی کچھ ہے اثاثہ میرا 
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ 
حسرتوں ، سسکیوں ، آہوں میں سمیٹا آنچل 
تیری خوشبو میرے اشکوں میں لپٹا آنچل 
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ 
ایک بھیگے ہوئے آنچل سے بندھا ہے سب کچھ

*******************************

تری گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں 
تجھے منانے کا کیسا کمال رکھتے ہیں 
تجھے خبر ہے تجھے سوچنے کی خاطر ہم 
بہت سے کام مقدرپہ ٹال رکھتے ہیں 
کوئی بھی فیصلہ ہم سوچ کر نہیں کرتے 
تمہارے نام کا سکہ اچھال رکھتے ہیں 
تمہارے بعد یہ عادت سی ہوگئی اپنی 
بکھرتے سوکھتے پتے سنبھال رکھتے ہیں 
خوشی سی ملتی ہے خود کو اذیتیں دے کر 
سو جان بوجھ کے دل کو نڈھال رکھتے ہیں 
کبھی کبھی وہ مجھے ہنس کے دیکھ لیتے ہیں 
کبھی کبھی مرا بے حد خیال رکھتے ہیں 
تمہارے ہجر میں یہ حال ہو گیا اپنا
کسی کا خط ہو اسے بھی سنبھال رکھتے ہیں 
خوشی ملے تو ترے بعد خوش نہیں ہوتے 
ہم اپنی آنکھ میں ہر دم ملال رکھتے ہیں 
زمانے بھر سے چھپا کر وہ اپنے آنچل میں 
مرے وجود کے ٹکڑے سنبھال رکھتے ہیں 
کچھ اس لئے بھی تو بے حال ہوگئے ہم لوگ
تمہاری یاد کا بے حد خیال رکھتے ہیں


*******************************

آدھی رات کے سناٹے میں 
کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
جانے کس کا فون آیا ہے 
فون اُٹھا کر یوں لگتا ہے 
اُس جانب کوئی گم سم ، گم سم اُکھڑا اُکھڑا 
دھیرے دھیرے کانپ رہا ہے 
مہکی ہوئی اک خاموشی 
گھپ خاموشی 
لیکن اس خاموشی میں بھی گونج رہے ہیں 
ٹھنڈی سانسیں ، بارش آنسو 
خاموشی سے تھک کر اس نے سانس لیا تو 
چوڑی کھنکی۔ ۔ ۔ 
اُف یہ کھن کھن۔ ۔ ۔ 
اک لمحے میں سارے بدن میں پھیل گئی ہے 
تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے 
لیکن اتنے برسوں بعد۔ ۔ ۔


*******************************

تیرا میرا رشتہ کچھ ایسا اُلجھا ہے 
اس کو سلجھاتے سلجھاتے 
اپنے دل کی پوریں زخمی کر بیٹھا ہوں 
رشتہ شائد سلجھ نہ پائے 
لیکن اس کو سلجھانے کی دھن میں جاناں 
سارے خواب بُھلا بیٹھا ہوں 
اپنا آپ گنوا بیٹھا ہوں

*******************************

اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا
ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا 
تم جہاں میرے لئے سیپیاں چنتی ہوگی 
وہ کسی اور ہی دنیا کا کنارہ ہوگا 
زندگ! اب کے مرا نام نہ شامل کرنا 
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا 
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی 
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارا ہوگا 
یہ اچانک جو اجالا سا ہوا جاتا ہے 
دل نے چپکے سے ترا نام پکارا ہوگا 
عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے 
اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارہ ہوگا 
یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور 
اس نے دریا میں کہیں پاؤں اُتارا ہوگا 
کون روتا ہے یہاں رات کے سناتوں میں 
میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا 
مجھ کو معلوم ہے جونہی میں قدم رکھوں گا 
زندگی تیرا کوئی اور کنارہ ہوگا 
جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی 
اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا 
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو 
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا

*******************************

زخم مسکراتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں 
چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا 
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے 
درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے 
خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
جو ستم کرے آکر سب قبول ہے دل کو 
ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے 
خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے 
چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے 
راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے 
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

*******************************

ہجر کرتے یا کوئی وصل گُزارا کرتے 





ہم بہر حال بسر خواب تمہارا کرتے

اک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مِل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دُور آ گئے دُنیا سے کنارا کرتے 

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سِر بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے 
کِس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

جب ہے یہ خانئہ دل آپ کی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی تیرے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور تیرا حُسن کہاں
ہم تیرے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے

*******************************


جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے





تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے

کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے



کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ






لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے






*******************************

ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب

فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب

بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب

عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب

چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب

وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب

خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب

وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب

*******************************

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا


وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا


قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا


کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا


جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں


بدن کو ناؤ، لُہو کو چناب کر دے گا


میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی


وہ جھوٹ بولے گا، اورلا جواب کر دے گا


اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سے پہلے


وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا


سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ


سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا


اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم


سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا


مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی


تُمہاری یاد کے نام اِنتساب کر دے گا


 *******************************

حرف تازہ، نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے

ایک لمحے کی توجّہ نہیں حاصل اُس کی
اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے

اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دست صبا چاہتا ہے

ریت ہی ریت ہے اس دل میں مُسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کف پا چاھتا ہے

یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی
اور کُچھ روز کہ وہ شوخ، کُھلا چاہتا ہے

رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے

تیرے پیمانے میں اب گردش نہیں باقی، ساقی 
اور تیری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتا ہے


  *******************************

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم

رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!

آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم

ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!


 *******************************





خوشبوؤں‌ کی بارش تھی، چاندنی کا پہرہ تھا
میں بھی اُس شبستاں‌ میں ایک رات ٹھہرا تھا

تو مری مسیحائی جان! کس طرح‌کرتا
تیری جھیل آنکھوں‌سے میرا زخم گہرا تھا

میں‌ نے اس زمانے میں‌ تیرے گیت گائے ہیں
تیرا نام لینا بھی جب گناہ ٹھہرا تھا

اس گھڑی نبھایا تھا اس نے وصل کا وعدہ
جب تمام رستوں‌ پر چاندنی کا پہرہ تھا

رنگ یاد ہے اس کا شام کے دھندلکے میں
آنسوؤں‌ سے‌ تر چہرہ کس قدر سنہرا تھا 


  *******************************

بتا نجومی! میری ہتھیلی میں پیار کوئی
کہا کہ تجھ پر تو ہو چکا ہے نثار کوئی

بتا ستارہ شناس کوئی سفر ہے لمبا؟
کہا بُلائے گا آسمانوں کے پار کوئی

بتا اُٹھائے گا اس زمیں کی بھی کوئی ڈولی؟
کہا کہ لے جائے گا اِسے بھی کہار کوئی

کہا کہ ساحل کی اُس طرف ہے مرا ٹھکانہ
بتاؤ رہتا ہے کیوں سمندر کے پار کوئی؟

سنو سمندر تمام اپنی رسائی میں ہیں
کہو کہ لہریں بھی کر سکا ہے شمار کوئی

سنا ہے محبت میں بھی ملاوٹ ہے مصلحت کی
کہو کسی کا عدیم کیا اعتبار کوئی

کہو در کون سا ہے، دستک کہاں پہ دے دی؟
عدیم گھڑیاں تو کر رہا تھا شمار کوئی



*******************************


اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی 

خزاں رتوں میں‌بھی گلاب مانگتی ہے زندگی



حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند

کبھی کبھی حسیں‌خواب مانگتی ہے زندگی 



کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں

کہ پھر کوئی نیا سراب مانگتی ہے زندگی 


وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لزتیں


نہ جانے کیوں‌وہی عذاب مانگتی ہے زندگی




پکارتا ہوں‌جب کبھی تنگ آ کے موت کو 

تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی 


میں‌زندگیء نو کو جب پکارتا ہوں، پاس آ

گزشتہ عمر کی کتاب مانگتی ہے زندگی 


*******************************





عجب کشمکش کے راستے ہیں
بڑی کٹھن یہ مسافتیں ہیں
میں جس کی راہوں میں بِچھ گئی ہوں
اسی کو مجھ سے شکائتیں ہیں
شکائتیں سب بجا ہیں، لیکن
میں کیسے اس کو یقیں دلاؤں
اُسے بُھلاؤں تو
مر نہ جاؤں
میں اس خموشی کے امتحاں میں
کہاں کہاں سے گزر گئی ہوں
اُسے خبر بھی نہیں ہے شاید
میں دھیرے دھیرے
بکھر گئی ہوں


*******************************



تم نے کہا تھا
پہلی بارش کے پڑتے ہی
لوٹ آؤ گے
ہم اور تم مل کر بھیگیں گے
دیکھو جاناں
کتنی پھواریں بیت چکی ہیں
ساون پھر سے لوٹ آیا ہے
برسوں پہلے کیا تھا تم نے
مجھ سے عہد
نبھا جاؤ ناں
جاناں! لوٹ کے آجاؤ ناں
اب تو لوٹ کے آجاؤ ناں


 *******************************

میری جاں ٹھیک کہتی ہو !
ہماری اس محبت کا
بھلا کیا فائدہ ہوگا
ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں
کم نہیں ہونگی
کبھی بارش کے موسم میں
ہمیشہ ساتھ رہنے کی !
جو خواہش دل میں جاگی تھی
جو سپنے ہم نے دیکھے تھے
وہ سپنے ٹوٹ جائیں گے
مری جاں! ٹھیک کہتی ہو
مقّدر کے لکھے کو ہو اگر تسلیم کرنا ہے
تو پھر ایسی محبت کا
کوئی بھی فائدہ کیسا؟
مگر اس کو اگر چاہو
تو میری بےبسی کہہ لو

“ مجھے تم سے محبت ہے“

 *******************************

بے سبب اداسی تھی


اب کے اُس کے چہرے پر

دُکھ تھا ۔۔۔۔ بے حواسی تھی


اب کے یوں ملا مجھ سے


یوں غزل سنی ۔۔۔۔۔ جیسے


میں بھی نا شناسا ہوں


وہ بھی اجنبی جیسے


زرد خال و خد اُس کے


سوگوار دامن تھا


اب کے اُس کے لہجے میں


کتنا کھردرا پن تھا


وہ کہ عمر بھر جس نے


شہر بھر کے لوگوں میں


مجھ کو ہم سخن جانا


خود سے مہرباں سمجھا


مجھ کو دلربا لکھا


اب کے سادہ کاغذ پر


سرخ روشنائی سے


اُس نے تلخ لہجے میں


میرے نام سے پہلے


صرف ” بے وفا “ لکھا !!!!







 *******************************





محبت ہم سے نہ ہو گی

سنا ہے اس محبت میں

بہت نقصان ہوتا ہے
مہکتا جھومتا جیون

غموں کے نام ہوتا ہے
سنا ہے چین کھو کر وہ

سحر سے شام روتا ہے
محبت جو بھی کرتا ہے

بہت بدنام ہوتا ہے
محبت ہم سے نہ ہو گی

سنا ہے اس محبت میں
کہیں بھی دل نہیں لگتا

بِنا اس کے نگاہوں میں
کوئی موسم نہیں جچتا

خفا جس سے محبت ہو
وہ جیون بھر نہیں ہنستا

بہت انمول ہے جو دل
اُجڑ کر پھر نہیں بستا

محبت ہم سے نہ ہو گی


 *******************************





مرے اندربہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
میں نہ چاہوں مگر پھر بھی تمہاری سوچ رہتی ہے
ہر اک موسم کی دستک سے تمہارا عکس بنتا ہے
کبھی بارش تمہارے شبنمی لہجے میں ڈھلتی ہے
کبھی سرما کی یہ راتیں
تمہارے سرد ہاتھوں کا دہکتا لمس لگتی ہیں
کبھی پت جھڑ
تمہارے پاؤں سے روندے ہوئے پتوں کی آوازیں سناتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی موسم گلابوں کا!
تمہاری مسکراہٹ کے سبھی منظر جگاتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی پلکیں تمہاری، دھوپ اوڑھے جسم و جاں پر شام کرتی ہیں
کبھی آنکھیں، مرے لکھے ہوئے مصرعوں کو اپنے نام کرتی ہیں
میں خوش ہوں یا اُداسی کے کسی موسم سے لپٹا ہوں
کوئی محفل ہو تنہائی میں یا محفل میں تنہا ہوں
یا پھر اپنی لگائی آگ میں بجھ بجھ کے جلتا ہوں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مرے اندربہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
اوراِس بے اختیاری میں
مرے جذبے، مرے الفاظ مجھ سے روٹھ جاتے ہیں
میں کچھ بھی کہہ نہیں سکتا، میں کچھ بھی لکھ نہیں سکتا
اُداسی اوڑھ لیتا ہوں
اوران لمحوں کی مٹھی میں
تمہاری یاد کے جگنو کہیں جب جگمگاتے ہیں
یا بیتے وقت کے سائے
مری بے خواب آنکھوں میں کئی دیپک جلاتے ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مجھے تم کو بتانا ہے
کہ رُت بدلے تو پنچھی بھی گھروں کو لوٹ آتے ہیں
سنو جاناں، چلے آؤ
تمہیں موسم بلاتے ہیں


 *******************************


تم مجھے بس یہ دعا دینا

خطا کوئی جو ہو جائے

کبھی لہجہ بدل جائے

ضروری بات رہ جائے

میرا چہرا بدل جائے

اگر پہچان نہ پاؤں

تمہیں گر جان نہ پاؤں

دعا دینا

محبت ایک دعا ہے

تم مجھے بس یہ دعا دینا


*******************************





ایک ہو کر بھی ہزاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
عشق پیدل بھی سواروں سے اُلجھ پڑتا ہے
سازش ِ زردی ِ موسم میں نہیں گر تُو شریک
کیوں بہاروں کے اشاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
کوئی الزام نہیں تم سے فقط پوچھا ہے
تیر کیا خود ہی شکاروں سے اُلجھ پڑتا ہے؟
خواہش ِ گل میں تو ملتی ہے سزا عجلت کی
یونہی دامن نہیں خاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
گاہے گاہے تجھے کیا ہوتا ہے اللہ جانے
بے سبب اپنے ہی یاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
ایک لمحے کے لیے چاند جو اُوجھل ہو جائے
دل وہ ضدی کہ ستاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
ظبط دریا کا بھی دیکھا ہے علی تاصف نے
بوجھ پڑتے ہی کناروں سے اُلجھ پڑتا ہے



*******************************





ایک معصوم تقدّس میں بھگویا ہوا لمس
کتنا پاکیزہ ہے احساس میں دھویا ہوا لمس


یہ تیرے جسم کی خوشبو کا سنہرا احساس
جس طرح چاند کا ہالے میں پِرویا ہوا لمس


اس کے ہونٹوں کو میں چُھو لوں تو گمان ہوتا ہے
جیسے جنّت کے گلابوں میں ڈبویا ہوا لمس


جو میری روح میں اُترے ہی چلے جاتے ہو
اِک نئے رنگ میں اُبھرے گا یہ بویا ہوا لمس


بھیگی خوشبو میں بسا، وصل میں بھیگا بھیگا
کتنا معصوم ہے پہلو میں یہ سویا ہوا لمس


تشنگی آن بسی ہے میری پوروں میں وصی
ڈھونڈتا پِھرتا ہوں مدّت سے میں کھویا ہوا لمس


*******************************



پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ھے

اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ھے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت

لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ھے

دل پر پانی پینے آتی ھیں امیدیں

اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ھے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کاگھاؤ

ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ھے

پھٹا پرانا خواب ھے میرا پھر بھی تابش

اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ھے



*******************************

راہ آسان ہو گئی ہو گی
جان پہچان ہو گئی ہو گی


پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی


تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پریشان ہو گئی ہو گی


موت سے تیرے درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہو گی


اس سے بھی چھین لو گے یاد اپنی
جن کا ایمان ہو گئی ہو گی


دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں میری جان ہو گئی ہو گی


مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہو گی


*******************************

سن لیا ہم نے فیصلہ۔۔۔۔۔ تیرا
اور سن کر، اداس ہو بیٹھے
ذہن چپ چاپ آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے


دل یہ کہتا ہے۔۔۔ضبط لازم ہے
ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک
اعتراف شکست کیا کرنا
فیصلے کی گھڑی بدلنے تک


دل یہ کہتا ہے۔۔۔ حوصلہ رکھنا
سنگ رستے سے ہٹ بھی سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے
جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں


اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے
یا مناظر بجھے بجھے ۔۔۔دیکھیں
اک طرف تو ہے ، اک طرف دل ہے
دل کی مانیں، کہ اب تجھے دیکھیں ؟


خود سے کشمکش سی جاری ہے
راہ میں حائل تیرا غم بھی۔۔۔۔ حائل ہے
چاک در چاک ہے قبائے حواس
بے رفو سوچ، روح گھائل ہے


تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے
غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے
ورنہ یوں ہے کہ دامن ِ دل میں
چند سانسیں ہیں، گن کے جی لیں گے


*******************************





سنو!
اگر فرصت ملے اور میں یاد آؤں
یاد رکھنا
مجھے آنسو کی طرح
پلکوں پر مت سجا لینا
کہ آنسو اور پلکوں میں
جدائی کا رشتہ ہے
نارسائی کا رشتہ ہے
بیوفائی کا رشتہ ہے
سنو!
جو پل میری جدائی میں گزرے ہیں
نارسائی میں گزرے ہیں
بیوفائی میں گزرے ہیں
انہیں تم بھلا دینا
ہاں!مگر
میری بات اور ہے
میں چاہوں بھی تو
تیرے حصار سے نکل نہیں سکتا
جی تو جاؤں گا پر سنبھل نہیں سکتا
میرے چارہ گر
تجھے کیا خبر
میں تو عمر بھر
تیرے ساتھ تھا
تیرے ساتھ ہوں
چاہوں بھی تو بدل نہیں سکتا۔

 *******************************

ابھی تک دل دھڑکتا ہے
ابھی تک سانس چلتی ہے
ابھی تک یہ مری آنکھیں
سہانے خواب بُنتی ہیں
مرے ہونٹوں کی جُنبش میں
تمہارا نام رہتا ہے
ابھی بارش کی بوندوں میں
تمہارا پیار باقی ہے
اُسے یہ بھی بتا دینا
ابھی اظہار باقی ہے
ابھی یادوں کے کانٹوں سے
مرا دامن الجھتا ہے
تمہارا پیار سینے میں
کہیں اب بھی دھڑکتا ہے
ہوا اب بھی موافق ہے
ہمارے ساتھ چلتی ہے
اُسے کہنا
جدائی کا ابھی موسم نہیں آیا
محبت کی کہانی میں
کہیں پر غم نہیں آیا
مگر سب کچھ بدلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
کسی کی یاد ڈھلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
نیا سورج نکلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
اُسے کہنا
وہ جلدی فیصلہ کر لے
نۓ رستوں پہ چلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے

*******************************

وہ فقط اتنا سا کمال رکھتا تھا
ہر کسی کا درد سنبھال رکھتا تھا

چرا کر میری پلکوں سے آنسو
میری آنکھوں میں خواب رکھتا تھا

دیتا تھا جو میری باتوں پہ دلائل
خود میری باتوں کو ٹال رکھتا تھا

کو بکو تھا چرچہ اسی کا چار سو
خود لاجوب تھاپر جواب رکھتا تھا

رکھتا تھا خیال اپنے اورں سے جدا
ہونٹوں پہ شکوہ نہ ملال رکھتا تھا

میں اس کو کبھی سمجھ ہی نہ سکا مدثر
ٹوٹ کر بھی جو ضبط میں کمال رکھتا تھا

*******************************





کیا تم بھی .........
شام کی دہلیز پہ آس کا دیپ جلاتے ہو
اور کسی برگ آوارہ کی آ ہٹ پر
دروزے کی جانب بھاگ جاتے ہو
کیا تم بھی .........
درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے
اکثر تھک سے جاتے ہو
اور بن کارن مسکاتے ہو
کیا تم بھی .........
نیند سے پہلے پلکوں پر ڈھیروں خواب سجاتے ہو
یا پھر !!! بے خواب جزیروں میں
روتے روتے سو جاتے ہو
کیا تم بھی ...........؟؟؟؟



*******************************

ایک جھونکے کی طرح دل میں اترتے کیوں ھو

گر بچھڑنا تھا تو یادوں میں چمکتے کیوں ھو

ھو سکے تو مجھے خوشبو سے معطر کر دو

پھول بن کے میرے بالوں میں اٹکتےکیوں ھو


تم جو کہتے ھو کوئی بات کبھی غزلوں میں
اپنے الفاظ میں کہنے سے جھجکتے کیوں ھو

ھم نہ کہتے تھے اسے کھویا تو مر جاؤ گے
اب چراغوں کی طرح شب کو سسکتےکیوں ھو

جس کو جانے دیا روکا بھی نہیں الفت میں
اس کے سائے سے سر شام لپٹتے کیوں ھو

میرے دل سے کب کسی ھمدرد نے پوچھا
تم شب ہجر کے لمحوں میں بکھرتے کیوں ھو

جس نے خود سے کبھی اقرار محبت نہ کیا
اس کی خاطر بھری دنیا سے الجھتے کیوں ھو


*******************************


سکوت جان کا مطلب بتا دو پھر چلے جانا
یا پھر سرگوشیاں دل کی سنا دو پھر چلے جانا

جو میرا اور تمہارا وقت گزرا ہنسنے رونے میں
اسے پوری طرح سے تم بھلا دو پھر چلے جانا

یہ سارے پیڑ پودے تم بن کیسے راتیں جاگے ہیں
تم آ کے ایک بار ان کو سلا دو پھر چلے جانا

نہ جانے کیوں ہے لیکن دیکھنے کی تم کو عادت ہے
میری یہ بے وجہ عادت چھڑا دو پھر چلے جانا

میرا ان شب و روز کا عنواں صرف تم ہی تو ہو
مجھے تم دوسرا عنواں بتا دو پھر چلے جانا


*******************************

نيا موسم پرانا هوگيا هے
اسے ديكهے زمانہ هوگيا هے

همارى مشكليں آساں هوئ هيں
فلك سے دوستانہ هو گيا هے

حقيقت ميں كہانى هے همارى
سنائى تو فسانہ هوگيا هے

ہميشہ اسنے ميرى بات مانى
مگر اب وه سيانہ هوگيا

*******************************

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ دعا یاد نہیں

ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی، عہدِ وفا یاد نہیں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں

میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاء یاد نہیں

صرف دھندلاتے ستارے کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے جدا، یاد نہیں


*******************************






تیری آنکھوں کے حسیں جال میں آ جاؤں گا میں


مجھ کو لگتا ہے، تیری چال میں آ جاؤں گا میں


زندگی بعد تیرے ہونا تھی مشکل لیکن


یہ نہ سوچا تھا کہ اس حال میں آ جاؤں گا میں


دیکھ کر اُس کو، مجھے یاد کرے گی دنیا


ایک دن اُس کے خد و خال میں آ جاؤں گا میں


کِتنے موسم تھے جو دے کے مجھے طعنے گزرے


تم تو کہتے تھے کہ اِک سال میں آ جاؤں گا میں 




سُر میں آ جائے گا جیون تیرے جانے سے


تیرے آنے سے کسی تال میں آ جاؤں گا میں






یہ جو پلکوں پہ رم جھم ستاروں کا میلہ سا ہے

یہ جو آنکھوں میں دُکھ سُکھ کے ساون کا ریلہ سا ہے

یہ جو تیرے بنا ' کوئی اتنا اکیلا سا ہے

زندگی تیری یادوں سے مہکا ہوا شہر ہے


سب محبت








 کا
 اک پہر ہے 


ساحلوں پہ گھروندے بنائے تھے ہم نے ' تمہیں یاد ہے

رنگ بارش میں کیسے اڑائے تھے ہم نے ' تمہیں یاد ہے

راستوں میں دیئے سے جلائے تھے ہم نے ' تمہیں یاد ہے

آئینے کس طرح سے سجائے تھے ہم نے ' تمہیں یاد ہے

کوئی خوشبو کا جھونکا ادھر آنکلتا کہیں

گُم ہے نیندوں کے صحرا میں خوشبو کارستہ کہیں

ہر خوشی آتے جاتے ہوئے وقت کی لہر ہے

سب محبت کا اک پہر ہے

زندگی دھوپ چھاؤں کا ایک کھیل ہے بھیڑ چھٹتی نہیں

اور اسی کھیل میں دن گزرتا نہیں ' رات کٹتی نہیں

تم نہیں جانتے خواہشوں کی مسافت سمٹتی نہیں

پیار کرتے ہوئے آدمی کی کبھی عمر گھٹتی نہیں

دل کی دہلیز پہ عکس روشن تیرے نام سے

رت جگےآئینوں میں کھلے ہیں کہیں شام سے

اک دریا ہے چاروں طرف درمیاں بحر ہے

سب محبت کا اک پہر ہے
*******************************

عید آنے کو ہے میں نے سوچا بہت
پھول بھیجوں کہ مہکار بھیجوں اُسے
چند کلیوں سے شبنم کے قطرے لئے
اُس کے رخسار پر آنسوؤں کی طرح
خوبصورت لگیں گے اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے عارض کہاں گُل کی پتّیاں کہاں
اُس کے آنسو کہاں شبنم کے قطرے کہاں
پھر یہ سوچا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ چاند کی چاندنی اور ستاروں کی روشنی بھی ساتھ ہو
مانگ کر چھین کر جس طرح بھی ہو ممکن اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی آنکھیں کہاں چاند تارے کہاں
پھر یہ سوچا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑا سا نورِ سحر
میں سحر سے چُرا کر اُسے بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اُس کا کہاں نور صبح کا کہاں
پھر یہ سوچا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھٹاؤں کو ہی بھیج دوں
اُس کے آنگن میں اُتر کر رقص کرتی رہیں
پھر یہ سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی زلفیں کہاں یہ گھٹائیں کہاں
پھر یہ سوچا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِک مئے سے بھرا جام ہی بھیج دوں
پھر یہ سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے عالم کے ہیں جتنے بھی میکدے
اُس کی آنکھوں کی مستی ہی بانٹی گئی
ساغر و مئے کہاں اُس کی آنکھیں کہاں
اُس کے قابل مجھے کچھ بھی نہ لگا
چاند تارے ہوا اور نہ ہی گھٹا
میں اسی سوچ میں تھا پریشان بہت
کہ کسی نے دی اِک نِدا اس طرح
یاد کرکے اُسے جتنے آنسو گریں
سب کو یکجا کرو اور اُسے بھیج دو۔.







*******************************


چھپانا راز اس دل کے
اگر تم چھوڑ دو جاناں
تمہیں مجھ سے محبت ہے
اگر تم بول دو جاناں
تو جیون کے سفر میں
راستہ آسان ہو جائے
ہمارے پاس بھی جینے کا 
کچھ سامان ہو جائے
وگرنہ ہم
تمہارے دل کے دروازے کے باہر
آس میں بیٹھے رہیں گے
تم کبھی تو بند دروازے کو کھولو گی
مرے شانے پہ سر رکھ کر
کبھی دھیرے سے بولو گی
مجھے تم سے محبت ہے


*******************************
کہا تھا ناں ۔۔۔؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی
کہیں بھی تم چلے جاؤ
کسی کے بھی تم بنو اور جس کسی کو چاہے اپناؤ
ہماری یاد سے پیچھا چُھڑانا،
اِس قدر آساں نہیں *جاناں!
کہا تھا ناں؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی



*******************************






دل میں اک امید سی جاگی ہے
من کو کوئی اچھا لگنے لگا ہے
ہر پل ہر لمحہ اس کا خیال ساتھ رہتا ہے
تنہائی میں اس کے احساس سے گفتگو ہوتی ہے
چار سو موجود اس کے لمس کی خوشبو ہوتی ہے
بھٹکنے لگتا ہے بھٹکنے لگتا ہے دل یہ سوچ کر اکثر
گر اس کرچی کرچی سمیٹے دل کی کرچیاں بکھر گئیں
تو سانسوں کا بندھن ٹوٹ نہ جائے کہیں
تم سے کہنا ہے دل کا ہر ارمان جاناں
پر ڈر لگتا ہے
گر اس بار ٹوٹ کہ بکھرا تو شاید
خود کو سمیٹ نہ پاؤں گا
میرے جینے کی وجہ ہو تم
دل کی دھڑکن میں شامل ہو تم
تم سے کہنا چاہتا ہیوں
مجھے تم سے محبت ہے
پر ڈر لگتا ہے
محبت اجاڑ ڈالے گی
محبت مار ڈالے گی
محبت مار ڈالے گی


*******************************


یہ خوشبو کے بکھر جانے کا موسم!!یہی موسم ہے مر جانے کا موسم

وداعِ دست و داماں کی گھڑی ہے
کہ لَوٹ آیا ہے گھر جانے کا موسم

گِنو لمحے کھلی آنکھوں سے شب کے
یہ ہے سوتے میں ڈر جانے کا موسم

کئی اُلجھی رُتوں کے بعد آیا !
تیری زلفیں سنور جانے کا موسم

سفر تھا، کون جانے کس نگر میں؟
وہ بھول آیا نِکھر جانے کا موسم

زمیں کی پیاس کو کب راس آیا؟
چڑھے دریا اُتر جانے کا موسم

وہی ہم ہیں وہی مقتل کی دھج ہے
وہی جاں سے گزر جانے کا موسم

وہی اُس کے سفر کا تیز لمحہ"
"وہی دل کے ٹھہر جانے کا موسم

یہاں زیرِ زمیں بسنے کی خواہش
وہاں کُہسار پر جانے کا موسم

وہ بستی، چاند سے چہرے وہ آنکھیں
یہ موسم ہے اُدھر جانے کا موسم!

قیامت ہے دلِ سادہ پہ محسنؔ
کسی کو چھوڑ کر جانے کا موسم


*******************************







کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو
کہا تھا کس نے کہ مسکراؤ اداس لوگ

گزر رہی ہیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں 
کواڑ کھولو ، دئیے بجھاؤ ، اداس لوگو!

جو رات مقتل میں بال کھولے اتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ اداس لوگو!

کہاں تلک بام و در چراغاں کیے رکھو گے؟
بچھڑنے والوں کو بھول جاؤ اداس لوگو!

اجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ اداس لوگو!

یہ کس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا؟
یہ کس نے آواز دی کہ آؤ اداس لوگو!

یہ جاں گنوانے کی رت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں کوئی سر سجاؤ اداس لوگو!

اسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ اداس لوگو






*******************************



 ذرا ٹھہرو، دُعا کے ساتھ ہی انعام لے جانا
ادھر تم جا رہے ہو میرا اک پیغام لے جانا

مرے آنسو ذرا دامن سے اپنے پونچھتے جاؤ
اگر لے جا سکو میری اکیلی شام لے جانا

اسے کہنا ضروری ہو اگر قیمت شب غم کی
تو یہ ٹوٹا ہوا دل چن کے اپنے دام لے جانا

اُسے کہنا مرے آنسو، مرا قرضہ ادا کر دے
بس اس کے پاس یہ میرا ذرا سا کام لے جانا

اُسے کہنا اُسے کہنا نہیں! کچھ بھی نہیں کہنا
مت اس کے سامنے میرا کوئی پیغام لے جانا

مگر تم جب کہو گے ساتھ چلنے کو ،تو حاضر ہوں
کہ میں تو ہوں سدا بندہ بے دام ...لے جانا

*******************************



وہ جو خود پیرویِ عہدِ وفا کرتا تھا
مجھ سے ملتا تھا تو تلقینِ وفا کرتا تھا

اُس کے دامن میں کوئی پھول نہیں میرے لیے
جو میری تنگیٴداماں کا گلہ کرتا تھا

آج جو اس کو بلایا تو وہ گم سم ہی رہا
دل دھڑکنے کی جو آواز سنا کرتا تھا

آج وہ میری ہر اک بات کے معنی پوچھے
جو میری سوچ کی تفسیر لکھا کرتا تھا

اس کی دہلیز پہ صدیوں سے کھڑا ہوں محسن
مجھ سے ملنے کے جو لمحات گِنا کرتا تھا

*******************************



ساز و آواز خدوخال میں آ جاتے ہیں
سانس لیتا ہوں تو سُر تال میں آ جاتے ہیں

جنگ اور عشق میں ہارے ہوئے لوگوں کی طرح
ہم غنیمت کے کسی مال میں آ جاتے ہیں

زندگی خواب ہے اور خواب کی قیمت لینے
جن کو آنا ہو کسی حال میں آ جاتے ہیں

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی دانستہ تیری چال میں آ جاتے ہیں

شام ڈھلتے ہی کسی گوشہٴویرانی میں
ہم پرندوں کی طرح جال میں آ جاتے ہیں



*******************************


دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتی والے تابش
جوکناروں کو ملاتے ہوئے مرجاتے ہیں۔


*******************************


تم اپنی صبحوں کے رنگ لکھنا کہ اپنی راتوں کے خواب لکھنا
بس اتنا کرنا جہاں بھی رہنا، میرے خطوں کے جواب لکھنا

پھر اتنی فرصت کسے ملے گی کہ مل کے بیٹھیں تو حال پوچھیں
مگر خطوں میں ہر ایک وعدے، ہر ایک قسم کا حساب لکھنا

مجھے تو تم نے قریب رہ کر بھی خیر جو جو اذیتیں دیں
تم اب جدائی کے موسموں میں اُٹھانا جو جو عذاب لکھنا

کبھی جو کچّے گھڑے کا قصہ تیری وفا کو غرور بخشے
عبور جب بھی کرنا چاہے ملامتوں کا عذاب لکھنا

تیری پریشانیوں کی خبریں یہ دکھتی آنکھیں نہ پڑھ سکیں گی
بدن میں کانٹے بھی چُبھ رہے ہوں، حرف مگر گلاب لکھنا

ہزار باتیں ہیں، چار راتیں ہیں، اس سے کیا کیا کہو گے خاور
وہ چہرہ پڑھ پڑھ کے یاد کر لو، وہ جا چکے تو کتاب لکھنا


*******************************


میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا 
قرعہ فال اکثر میرے نام کا نکلا 

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھ ہی میں ڈوبے 
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا 
جب کوئی پھول میری شاخ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے میرے بزدل دشمن 
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحراتے محبّت کا مسافر تھا فراز 
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا 


*******************************


کہو دکھ کے سمندر کا سفر اب تک رہا کیسا ؟
کہا اجلے کناروں کا کہیں امکان دیکھا ہے

کہو دریا کناروں سے بھلا کیا گفتگو ٹھہری ؟

کہا دریا کو اپنے ضبط پر حیران دیکھا ہے

کہا کیوں کس لئے کھولا تھا تم نے دل کا درواز؟
بتایا دل کے رستوں پر کوئی مہمان بیٹھا ہے

کہو اس عشق کی بابت بھلا کیا حد رہی ہو گی؟
کہا وہ عشق جیسے روح کا سرطان دیکھا ہے

کہو اُس سے بچھڑنے کی تمہیں منظور یہ ہو گا؟
کہا جینے کی خواہش کو کبھی قربان دیکھا ہے

کہو پھر تم پہ کیا گزری وہ خواب ِ زندگی کھو کر ؟
کہا کل اپنی آنکھوں کو بہت بے جان دیکھا ہے


*******************************


پت جھڑ میں درختوں سے وفا کون کرے گا؟
جو قرض تھا چھاؤں کا، ادا کون کرے گا؟
اب کے تو پرندے بھی بڑی دیر سے چُپ ہیں
موسم کے بدلنے کی دعا کون کرے گا؟
آتے ہوئے ہر سنگ کے بدلے میں دعائیں
بدخواہوں سے یوں پیار بھلا کون کرے گا؟
سب کھیل سمجھتے ہیں اِسے چار دنوں کا
یہ کارِ محبت ہے، سدا کون کرے گا؟
کاٹے ہیں کئی لوگوں نے خود اپنے ہی پاؤں
جو ہم نے کیا ہے، وہ بتا کون کرے گا؟
درِ گل پہ صبا دیتی ہے دستک
کانٹوں کے گھروندوں پہ صدا کون کرے گا؟

*******************************



حسین کتنا زیادہ ہو گیا ہے
وہ جب سے اور سادہ
 ہو گیا ہے
چلو ہم بھی محبت کر ہی لیں گے
اگر اُس کا ارادہ ہو گیا ہے
بھُلا دوں گا اُسے اگلے جنم تک
میرا اُس سے وعدہ 
ہو گیا ہے
بچھڑنے کا اسے بھی دُکھھ ہے شاید
کہ اب تو وہ بھی آدھا ہو گیا ہے

*******************************




دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے

اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے

چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
اُس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے

بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے

شعبدہ بازی ٔآئینہ ٔاحساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے

دیکھئے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سُرخ گھٹا ہے کب سے

کور چشموں کے لئے آئینہ خانہ معلوم!
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے

کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجد
ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہوا ہے کب سے



*******************************



کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے

میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لئے
توں ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے

تیرے رستے کا، جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے

سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے

اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

آخری بات مجھے یاد ہے اس کی ساجن
روگ اُس کا نہ میں دل سے لگاؤں اپنے



*******************************





لڑکی
سرکوجھُکائے
بیٹھی
کافی کے پیالے میں چمچہ
ہلا رہی ہے
لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت
سے پاگل
لانبی پلکوں کے لرزیدہ
سایوں کو
اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے
دونوں میری نظر بچا کر
اک دُوجے کو دیکھتے ہیں
ہنس دیتے ہیں !
میں دونوں سے دُور
دریچے کے نزدیک
اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ
رکھے
کھڑکی سے باہر کا منظر
دیکھ رہی ہوں
سوچ رہی ہوں
گئے دنوں میں ہم بھی
یونہی ہنستے تھے



*****************
**************




مجھے سارے رنج قبول ہیں اسی ایک شخص کے پیار میں

مری زیست کے کسی موڑ پر جو مجھے ملا تھا بہار میں


وہی اک امید ھے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں، مری خواھشوں کے دیار میں


وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں


یہ تو صرف سوچ کا فرق ھے یہ تو صرف بخت کی بات ھے
کوئی فاصلہ تو نہیں، تری جیت میں مری ہار میں


ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ھے
کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں


کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تری طلب گداز میں نہ مرے ھنر کے وقار میں


*****************
**************



تھی جس سے روشنی وہ دیا بھی نہیں رہا

اب دل کو اعتبارِ ہوا بھی نہیں رہا

تُو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے
تُو کھو گیا تو اپنا پتا بھی نہیں رہا

کچھ ہم بھی تیرے بعد زمانے سے کٹ گئے
کچھ ربط و ضبط بھی خدا سے نہیں رہا

گویا ہمارے حق میں ستم در ستم ہوا
حرفِ دُعا بھی ، دستِ دُعا بھی نہیں رہا


*****************
**************



گمشدہ محبّت کے خوابوں کی طرح ہے

وہ روح کے صحرا میں سرابوں کی طرح ہے


وہ زیست کے مکتب میں نصابوں کی طرح ہے
پڑھتا ھوں اسے روز کتابوں کی طرح ہے


اب اس سے خیالوں میں ہی ھو جاتی ہیں باتیں
گو بیچ ميں پردہ ہے حجابوں کی طرح ہے


اس شخص کے لہجے میں شیشے کی کھنک ہے 
رگ رگ میں اترتا ہے شرابوں کی طرح ہے


اس شخص کے پیکر میں ہے شاخوں کی لچک سی
اس شخص کا چہرہ بھی گلابوں کی طرح ہے


جو وصال کے راتوں میں ہے اک ماہ۔ مسلسل
فرقت میں وہی شخص عذابوں کی طرح ہے


*****************
**************



خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی
لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی

چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال
اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک
دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال
ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز
اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد
اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی

ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی


*****************
**************



نجانے آج یہ کس کا خیال آیا ہے
خوشی کا رنگ لئے ہر ملال آیا ہے


وہ ایک شخص کہ حاصل نہ تھا جو خود کو بھی
مٹا کسی پہ تو کیسا بحال آیا ہے


زباں پہ حرفِ طلب بھی نہیں کوئی پھر بھی
نگاہِ دوست میں رنگِ جلال آیا ہے


کیا نہ ذکر بھی جس کا تمام عمر کبھی
ہمارے کام بہت وہ ملال آیا ہے


نہیں ہے تم سے کوئی دوستی بھی اب تو مگر
قدم قدم پہ یہ کیسا وبال آیا ہے


*****************
**************


جلا کے تو بھی اگر آسرا نہ دے مجھ کو
یہ خو ف ہے کہ ہوا پھر بجھا نہ دے مجھ کو

میں اس خیال سے سے مڑ مڑ کے دیکھتا ہوں اسے
بچھڑ کے وہ بھی کہیں پھر صد ا نہ دے مجھ کو

فضا ئے دشت اگر اب بھی گھر کو یا د کروں
وہ خاک اڑے کہ ہوا راستہ نہ دے مجھ کو

بس اس خیال سے میں شب بھر سو نہیں سکتا
کہ خوفِ خوابِ گذ شتہ جگا نہ دے مجھ کو

تیر ے بغیر تیری طرح میں ذ ندہ ر ہوں
یہ حو صلہ بھی دعا کر نہ دے خدا مجھ کو

میں اس لئے بھی اسے منا ؤں گا محسن
کہ مجھ سے رو ٹھنے والا بھلا نہ دے مجھ کو



*****************
**************




جب بیاں کرو گے تم، ہم بیاں میں نکلیں گے
ہم ہی داستاں بن کر، داستاں میں نکلیں گے

عشق ہو، محبت ہو ، پیار ہو کہ چاہت ہو
ہم تو ہر سمندر کے درمیاں میں نکلیں گے
رات کا اندھیرا ہی رات میں نہیں ہوتا
چاند اور ستارے بھی آسماں میں نکلیں گے

بولیاں زمانے کی مختلف تو ہوتی ہیں
لفظ پیار کے لیکن ہر زباں میں نکلیں گے

خاک کا سمندر بھی اک عجب سمندر ہے
اس جہاں میں ڈوبیں گے، اس جہاں میں نکلیں گے

صرف سبز پتے ہی پیڑ پر نہیں ہوتے
کچھ نہ کچھ پرندے بھی آشیاں میں نکلیں گے

قصئہِ سخن کوئی جب عدیم آئے گا
ہم بھی واقعہ بن کر داستاں میں نکلیں گے


*****************
**************


نیلا میرا وجود گھڑی بھر میں کرگیا
وہ زہر کی طرح مرے دل میں اتر گیا


پلکیں لرز کے رہ گئیں اور دیپ بجھہ گئے
الزام اب کے بار بھی آندھی کے سر گیا


اب کس لئے سنبھال کے رکھوں بصارتیں
آنکھوں سے خواب چھین کے جب چارہ گر گیا


اس سے بچھڑ کے دل کا ہوا ہے عجیب حال
پانے کی آرزو گئی، کھونے کا ڈر گیا


جب موسموں نے پھر سے بغاوت کی ٹھان لی
ٹہنی پہ پھول کھلنے سے پہلے بکھر گیا


بہتر ہے خود رفو گری سیکھوں کہ آج تو
گھاؤ کھلے ہی چھوڑ کے وہ چارہ گر گیا


اس پر یقیں بحال ہوا تو وہ ایک دم
اقرار کے مقام پہ آ کر مکر گیا


آنکھوں سے نیند، دل سے سکوں ہوگیا جدا
لگتا ہے اپنے ساتھ کوئی ہاتھہ کرگیا


سورج نے ساتھہ چھوڑا تو دیکھا پلٹ کے تب
سوچا، جو ساتھہ چلتا تھا سایہ کدھر گیا



*****************
**************





کہتے ہیں جب گھر میں اچانک


ایسی آگ بھڑک اٹھے


جو چشمِ زدن میں


ہر یک شے کو اپنی لپیٹ میں لے لے،


آگ بجھانا مشکل ہو اور


گھر کا اثاثہ اس سے بچانا ناممکن ۔۔۔تو


ایک ہی رستہ رہ جاتا ہے


جو بچتا ہے وہی بچائو!


گھر کی سب سے قیمتی چیز ہاتھ میں لو اور


اس سے دور نکل جائو


میرے دل میں بھی ایسی ہی آگ لگی تھی


میں نے جلدی جلدی آنکھ میں تیرے بجھتے خواب سمیٹے


تیری یاد کے ٹکڑے چن کر دھیان میں رکھے


اور اس آگ میں دل کو جلتا چھوڑ کے دور نکل آیا ہوں


میں نے ٹھیک کیا ہے ۔۔۔نا


*****************
**************

اے محبت !

تیری قسمت 

کہ تجھے مفت ملے ہم سے دانا 


جو کمالات کیا کرتے تھے 


خشک مٹی کو امارات کیا کرتے تھے 


اے محبت! 


یہ تیرا بخت 


کہ بن مول ملے ہم سے انمول 


جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے 


ہم سے منہ زور 


جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے 


اے محبت میری! 


ہم تیرے مجرم ٹھہرے ، 


ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے 


ہم جو سو باتوں کی ایک بات کیا کرتے تھے 


تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک 


ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے 


ہم بگڑتے تو کئی کام بنا کرتے تھے 
اور ! 


اب تیری سخاوت کے گھنےسائے میں 


خلقتِ شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے 


جتنے الزام تھے 


مقسوم ہمارا ٹھہرے 


اے محبت ! 


ذرا انداز بدل لے اپنا 


تجھہ کو آئندہ بھی عاشقوں کا خون پینا ہے 


ہم تو مر جائیں گے ، تجھ کو مگر جینا ہے 


اے محبت ! 


تیری قسمت 


کہ تجھے مفت ملے ہم سے انمول 


ہم سے دانا۔۔۔۔۔ 


اے محبت


*****************
**************


خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی 

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا 
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی 

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا 
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی 

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ 
کھنچی ہوئی ہیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی 

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم 
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی 

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے 
میں سنگِ راہ ہوں ، مجھ پر عنایتیں کیسی


*******************************


اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا

یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہےاس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا

اس شہر میں کتنےچہرے تھے،کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا

وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہوا یا شاد ہوا

بےنام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہوا



*******************************


ان جھيل سي گہري آنکھوں ميں اک شام کہيں آباد ہو

اس جھيل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نيلا پھول کھلے
وہ پھول بہاديں لہروں ميں
اک روز کبھي ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں ميں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہيں ان آنکھوں ميں اس بسرے پل کي ياد تو ہو
ان جھيل سي گہري آنکھوں میں اک شام کہيں آباد تو ہو 

پھر چاہے عمر سمندر کي
ہر موج پريشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دريجے سے
ہر خواب گريزاں ہوجائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر در نمايا ہو جائے
اس جھيل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ايجاد تو ہو
دن رات کے اس آئينے سے وہ عکس کبھي آزاد تو ہو
ان جھيل سے گہري آنکھوں ميں اک شام کہيں آباد تو ہو


*******************************


بہت ہی مدت کے بعد کل جب 
کتاب ماضی کومیں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اترے
بہت سے ناموں پہ دل تڑپا
اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا
لکھا ہوا تھا جو آنسو سے
کہ جس کا عنوان ہمسفر تھا
یہ صفحہ سب سے ہی معتبر تھا
کچھ اور آنسو پھر اس پہ ٹپکے
پھر اس سے آگے میں پڑھ نا پایا
کتاب ماضی کو بند کر کے 
اسی کی یادوں میں کھو گیا میں
اگر وہ ملتا تو کیسا ہوتا
انہی خیالوں میں سو گیا میں

*******************************



کتنی مدت بعد تمہاری یاد آئی ہے

یوں لگتا ہے جیسے دل یہ رک جائے گا
یوں لگتا ہے جیسے آنکھیں 
اپنے سارے آنسو رو کر 
بالکل بنجر ہو جائیں گی
یوں لگتا ہے جیسے پچھلے موسم پھر سے لوٹ آئے ہیں
جاناں! یہ دل خوش رہنے کے
طور طریقے بھول چکا ہے
اُس پر تیری یاد کی دستک
یوں لگتا ہے جیسے دل پر
ایک قیامت گزر رہی ہو
کوئی طوفاں آن کھڑا ہو
جیسے ایک اکیلی ناؤ
بیچ بھنور کے آن پھنسی ہو
یوں لگتا ہے جیسے سپنے
ایک حقیقت بن بیٹھے ہوں
اتنی مدت بعد تمہاری یاد آئی ہے
سوچ رہا ہوں کیا اُس کی تعظیم کروں میں
پلکوں پر اشکوں کے دیپ جلا لیتا ہوں
دل کے اُجڑے آنگن کو مہکا لیتا ہوں
دل کہتا ہے پھر خود کو تقسیم کروں میں
اتنی مدت بعد تمہاری یاد آئی ہے
یوں لگتا ہے جیسے پچھلے موسم پھر سے لوٹ آئے ہوں





*******************************




بہت دن سے!
مجھے کچھ اَن کہے الفاظ نے بے چین کررکھا ہے
مجھے سونے نہیں دیتے
مجھے ہنسنے نہیں دیتے
مجھے رونے نہیں دیتے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے سانس سینے میں کہیں ٹھہری ہوئی ہے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے تیز گرمی میں
ذرا سی دیر کو بارش برس کے رک گئی ہے
گھٹن چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے
بہت دن سے!
مری آنکھوں میں سپنوں کی
کوئی ڈولی نہیں اُتری
بہت دن سے!
خیالوں میں‘ دبے پاؤں
کوئی اپنا نہیں آیا
بہت دن سے!
وہ سب جذبے!
جو میری شاعری کے موسموں میں رنگ بھرتے تھے
کہیں سوئے ہوئے ہیں
مرے الفاظ بھی کھوئے ہوئے ہیں
میں اُن کو ڈھونڈنے!
اِس زندگی کے دشت میں نکلا تو ہوں لیکن!
مجھے معلوم ہے‘ جذبے!
اگر اک بار کھو جائیں
تو پھر واپس نہیں ملتے
مجھے معلوم ہے پھر بھی!
ابھی اک آس باقی ہے
میں اب اُس آس کی انگلی پکڑ کر
چل رہا ہوں
بظاہر شبنمی ٹھنڈک مجھے گھیرے ہوئے ہے
مگر میں جل رہا ہوں
میں اب تک چل رہا ہوں


*******************************


تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں
پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی

اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے
جانے والوں نے کتنی عجلت کی

میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں
میرے اجداد نے حکومت کی

پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر
عکس نے آئینے سے ہجرت کی

میری آنکھوں پہ اس نے ہاتھ رکھا
اور اک خواب کی مہورت کی

اتنا مشکل نہیں تجھے پانا
اک گھڑی چاہئے ہے فرصت کی

ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی

کون کس کے لیے تباہ ہوا
کیا ضرورت ہے اس وضاحت کی

عشق جس سے نہ ہو سکا ، اس نے
شاعری میں عجب سیاست کی

یاد آئی تو ہوئی شناخت مگر
انتہا ہو گئی ہے غفلت کی

ہم وہاں پہلے رہ چکے ہیں سلیم
تم نے جس دل میں اب سکونت کی

سلیم کوثر


*******************************


ہے اختیار میں تیرے تو معجزہ کر دے
وہ شخص میرا نہیں ہے اسے میرا کر دے 

یہ ریگزار کہیں ختم ہی نہیں ہوتا 
ذرا سی دور تو رستہ ہر بھرا کر دے

میں اس کے زور کو دیکھوں ،وہ میرا صبر و سکوں
مجھے چراغ بنا دے اسے ہوا کر دے 

اکیلی شام بہت ہی اداس کرتی ہے 
کسی کو بھیج کوئی میرا ہمنوا کردے 




*******************************




1 comment: