Pages

Thursday, 15 December 2011

مجھے اب کچھ نہیں کہنا






محبت ہجر کی دہلیز پر، دو جاگتی آنکھوں میں ٹھہرا اشک ہے
اک ایسا اشک، جس میں وصل کا سپنا لرزتا ہے
کہ جیسے حوض کے پانی میں بھیگا عکس،
جھلمل خواب کا منظر
کسی کی ارغوانی اوڑھنی پر جھلملاتا سا ستارہ،
یا کسی خواہش کا تنہا سا جزیرہ
جس کے چاروں سمت پانی ہے
اور اس پانی میں جتنے سیپ ہیں سب موتیوں والے
مگر وہ خیرہ کن موتی کہاں سب کے مقدٌر میں

یہ سب باتیں تمہیں ملنے پہ مجھ کو تم سے کہنا تھیں

مگر جاناں ! تمہیں دنیا کے دھندوں سے کہاں فرصت
مجھے ڈر ہے کہیں ایسا نہ ہو جب تم کو فرصت ہو
تو میں کہہ دوں

مجھے اب کچھ نہیں کہنا

No comments:

Post a Comment