جنوری لوٹ آئی ہے
اسے کہنا کتابوں میں رکھے، سوکھے ہوۓ کچھ پھول
اس کے لوٹ آنے کا یقین اب تک دلاتے ہیں
اسے کہنا۔۔۔کہ اسکی جھیل سی آنکھیں
کسی منظر پر چھا جائیں
تو سب منظر ،پھر یونہی بھیگ جاتے ہیں
اسے کہنا-------کہ ٹھنڈی برف پر کوئی کسی کے ساتھ چاتا ہے
تو قدموں کے نشاں پھر سے اس کے لوٹ آنے
کے نشان دل پر بناتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا-------کہ اسکی بھیگی آنکھوں کا وہ آنسو
ستارے کی طرح اب بھی ہمیں شب بھر جگاتا ہے
اسے کہنا۔۔۔۔۔کہ بارش-----کھڑکیوں پے اسکے
آنسو ۔پینٹ کرتی ہے۔۔۔۔۔اسی کا نام لکھتی ہے
اسے ہی گنگناتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا---------------------کہ خوشبو،چاندنی،تارے،صبا
رستے،گھٹا،کاجل،محبت،
شبنم،ہوائیں،رات،دن،بادل،، ،
سبھی ناراض ہیں ہم سے---------
اسے کہنا''''''جدائی کے درختوں پر جو سوکھی ٹہنیاں ہیں۔۔۔
وہ ساری برف کی چادر میں کب کی ڈھک چکی ہیں۔۔۔۔
اور ان شاخوں پر یادوں کے جو پتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنہری ہو گئے ہیں
اسے کہنا دسمبر سو گیا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ یخ بستہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے۔۔۔
اسے کہنا لوٹ آۓ۔۔۔۔۔۔
ہاں!
اب لوٹ آۓ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment