Pages

Monday, 9 January 2012

ایک چہرہ ہے جو وجدان میں رکھا ہوا ہے






ایک چہرہ ہے جو وجدان میں رکھا ہوا ہے 
پھول جیسے کوئی گلدان میں رکھا ہوا ہے 

شاید اک خواب کی انگلی بھی ہوں تھامے ہوئے میں
اور کوئی دھیان بھی سامان میں رکھا ہوا ہے 

چونک اٹھتا ہوں میں اس واسطے اُس سے مل کر
ہجر کا دکھ کوئی امکان میں رکھا ہوا ہے 

شاید اس واسطے رہتی ہے مجھے اپنی تلاش
ذائقہ زیست کا پہچان میں رکھا ہوا ہے 

قید کر رکھا ہے اس نے مجھے مجھ میں کاشف
روح کو جسم کے زندان میں رکھا ہوا ہے 

No comments:

Post a Comment