ایک چہرہ ہے جو وجدان میں رکھا ہوا ہے
پھول جیسے کوئی گلدان میں رکھا ہوا ہے
شاید اک خواب کی انگلی بھی ہوں تھامے ہوئے میں
اور کوئی دھیان بھی سامان میں رکھا ہوا ہے
چونک اٹھتا ہوں میں اس واسطے اُس سے مل کر
ہجر کا دکھ کوئی امکان میں رکھا ہوا ہے
شاید اس واسطے رہتی ہے مجھے اپنی تلاش
ذائقہ زیست کا پہچان میں رکھا ہوا ہے
قید کر رکھا ہے اس نے مجھے مجھ میں کاشف
روح کو جسم کے زندان میں رکھا ہوا ہے
No comments:
Post a Comment