Pages

Sunday, 29 January 2012

میں کہ پھر دشتِ رفاقت کا سفر کر آیا




میں کہ پھر دشتِ رفاقت کا سفر کر آیا
کیا کہوں کتنی اذیت سے گذر کر آیا

ہر کوئی ہم سے ملا عمرِ گُریزاں کی طرح
وہ تو جس دل سے بھی گذرا وہیں گھر کر آیا

تم نے اک سنگ اُٹھایا میرے آئینے پر
اور ہر شخص کو میں آئینہ گر کر آیا

مُجھ سے کیا پُوچھتے ہو شہرِ وفا کیسا ہے
ایسا لگتا ہے صلیبوں سے اُتر کر آیا

صرف چہرے ہی اگر کرب کے آئینے ہیں
کیوں نہ میں دل کا لہُو آنکھ میں بھر کر آیا

اب تو جو اس شہر کی تقدیر ہو میں تو لوگو
دار و دیوار پہ حسرت کی نظر کر آیا

ہم تو سمجھے تھے محبت کا پیمبر ہے فراز
اور وہ بے مہر بھی توہیں ہُنر کر آیا


No comments:

Post a Comment