Pages

Monday, 9 January 2012

آوارہ ہوا کی دستک




رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
دل کی وحشت کا طلاطم بھی ٹھہر جاتا ہے
نیند تاریک ھیولے کی طرح
آنکھ سے دور فضاؤں میں اٹک جاتی ہے
اور پھر روح کے ویران زمانوں سے کہیں
تیری آواز چلی آتی ہے
پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں 
سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا
کہیں آوارہ ہوا کی دستک
تیرگی میں کسی مٹی کے دیئے کی دھڑکن
خواب کی چاپ
سر شب کسی بھٹکے ہوئے بے خواب مسافر کا گماں
اور پھر ساری صدائیں سبھی غم
تیری آواز میں ڈھل جاتے ہیں
ڈھونڈتی پھرتی صدائیں سر بربادی دل
شہر در شہر سفر کرتی ہیں
اور پھر ٹھہر بھی جائیں کہیں اک دو پل
غمزدہ شہر میں برباد مسافر کی طرح
بے نوا عمر کے زندانوں میں
رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
ہم جہاں بھی ہوں
تیری آواز چلی آتی ہے

No comments:

Post a Comment